نیو گریٹ گیم، بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر، محرکات اور حل
میجر (ر) ساجد مسعود صادق
اس وقت بین الاقوامی برادری بالخصوص بڑی طاقتوں سمیت تمام پاکستان دشمن اور دوست ممالک پاکستانی آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹے اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں کسی نہ کسی طریقے سے سرگرمِ عمل ہیں۔ اس سر گرمی کی کئی وجوہات ہیں جن میں اولاً پاک چین مُشترکہ پراجیکٹس “گوادر پورٹ“ اور “سی پیک” زیر تعمیر ہیں۔ ثانیاً، پاکستان کا یہ صوبہ کوئلہ، گیس، تیل، سونا اور دیگر قیمتی معدنی وسائل سے مالا مال بھی ہے جس پر بین الاقوامی قوتوں کی نظر ہے اور اگر بلوچستان میں امن قائم ہوتا ہے تو ان وسائل کی دستیابی کے بعد پاکستان بین الاقوامی اہمیت کی حامل اہم ترین لوکیشن پر واقع ہونے کی وجہ سے اپنے تمام معاشی مسائل حل کرکے بہت جلد ایک ایسی ریاست بن سکتا ہے کہ جو کسی بھی سُپر پاور سے کم نہیں ہوگی۔ پاکستان کے وہ دُشمن جو پاکستان کو کبھی مضبوط ہونے نہیں دینا چاہتے یا ایسے ممالک جن کی تجارت اور معیشت پر “گوادر پورٹ“ اور “سی پیک“ کی تکمیل کی وجہ سے منفی اثرات مُرتب ہوں گے ظاہر ہے وہ اس منصوبے کی ناکامی ہی چاہیں گے۔
گذشتہ برس پاکستانی آرمی چیف (سید جنرل عاصم مُنیر) کا اہم ترین دورہ چین جس میں پاک چین فوجی تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا، دہشت گردوں کو فتنہ خوارج قرار دینا، چین کے بری افوج کے چیف جنرل “لی چیاؤ منگ“ کا پاکستان کا دورہ اور پاکستانی صدر کا اُسے “ہلال امتیاز ملٹری“ دینا اور چینی صدر کے دورے کے دوران پورے بلوچستان کا انتہائی منظم حملہ ایسے ڈپلومیٹک سگنلز ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت آرمی کے ساتھ ملکر پاکستان کی معاشی لائف لائن کی بحالی کے منصوبوں کے لیئے اپنی فارن پالیسی انتہائی حکمت کے ساتھ بدل رہی جسے امریکہ اور مغربی طاقتوں سمیت جنوب ایشیائی خطے میں اُن کے اتحادی ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ گوادر میں غیر مُلکی اشاروں پر راجی مُچی مارچ (بلوچ یک جہتی اجتماع) کے بعد بلوچستان میں وسیع پیمانے پر دہشت گردی کاروائیاں جن میں چُن چُن کر پنجابیوں کو قتل کرنا یا پھر ایران اور عراق کی طرف سے آتے زائرین کی گاڑیوں اور قافلوں پر حملے کرنا یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سارا کھیل بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچ نیشنلسٹ قوتوں کا نہیں بلکہ اسے پاکستان دُشمن قوتوں کی ہر طرح سے مکمل حمایت، تعاون اور رہنمائی حاصل ہے۔
پاکستان دُشمن قوتیں بڑی مّکاری سے بلوچی عوام کے جائز مطالبات اور احساس محرومی، پاکستان میں احتجاجوں کی سیاست کے نتیجے میں برپا سیاسی عدم استحکام، پاکستان کی خراب معاشی صورتحال اور مہنگائی کو بُنیاد بنا کر پاکستانی عوام کو اُکسا کرپاکستان میں ایک انتشار برپا کرکے نا صرف امن اور استحکام کی کوششوں بلکہ پاک چین “گیم چینجر پراجیکٹ“ گوادر پورٹ اور سی پیک کو ناکام بنانا چاہتی ہیں۔ پاکستان دُشمن یہ قوتیں پاکستان میں علاقائیت، مذہب اور بلوچ عوام کے مسائل کو ملا جُلا کر ایک ایسا طاقتور بیانیہ مارکیٹ میں لائی ہیں کہ یہ بیانیہ خود بتارہا ہے کہ نام “نہاد بلوچ جہدو جہد“کے پیچھے پاکستان دُشمن ممالک، اُن کی ایجنسیاں اور پاکستان کے اندر اُن کے آلہ کار مُتحرک ہیں۔سویلین گاڑیوں، زائرین کے قافلوں، فوجی چھاؤنیوں اور چوکیوں پر حملہ آوروں ناصرف نہایت تربیت یافتہ ہونا، ان کے پاس جدید ترین ہتھیاروں کی موجودگی اور مخفی ذرائع سے ٹارگٹ سلیکشن میں دُرست رہنمائی اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ یہ بین الاقوامی کھیل ہے جسے بین الاقوامی سیاسیات کے مُفکر“ نیو گریٹ گیم“ کا نام دیتے ہیں۔
اور بلا مبالغہ امریکی قیادت میں مغربی دُنیا اور اس خطے میں اُن کے اتحادی ایک تو دوسری طرف چین، روس اور اتحادی ہیں جبکہ پاکستان اس نیوگریٹ کا عین مرکز ہے۔
روس کے ٹوٹنے کے بعد سن 1991ء میں تیار کیئے گئے ایک اہم امریکی ڈاکومنٹ “دیفینس پالیسی گائیڈ” (DGP) سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ چین کو اپنا اگلہ ہدف مقرر کرکے چین کے خلاف ایک جامع حکمت عملی کے تحت عملی اقدامات میں مصروف ہوگیا تھا۔ ہنٹنگٹن کے تھیسز “کلیش آف سولائزیشن“ سے مُتاثر ہو کر امریکی منصوبہ سازوں نے چین سے ڈائریکٹ مقابلے کی نوبت آنے سے پہلے اور چین کے اثرونفوذ کو پوری دُنیا میں پھیلنے سے پہلے چین کے ممکنہ اتحادی اسلامی ممالک سے نپٹنا ضروری گردانا۔ اسی لیئے نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کا مرکزی اسلامی ممالک ہی تھے۔ اسی منصوبے کے تحت بھارت کو چین کے مدمقابل کھڑا کرنے کے لیئے مضبوط کیا گیا اور پاکستان کو چین کا ممکنہ اتحادی سمجھ کرخوب کمزور کیا گیا۔ اسی طرح مڈل ایسٹ کے مختلف ممالک اور افغانستان میں فوجی اڈے قائم کیئے گئے ، عراق کے تیل اور گیس کے ذخیروں پر قبضہ کیا گیا اور اسلامی ممالک میں اپنی مرضی کے حکمران لانے اور مغرب مخالف حکمرانوں کے تختے اُلٹنے اور حکومتیں بدلنے کا کام کیا گیا۔ امریکہ یہ کام صدر ریگن کے دور سے کررہا ہے جس میں تیزی بل کلنٹن، بُش جونیئر، اوباما اور جوبائیڈن دور میں دیکھی گئی۔
جب سے جنرل عاصم مُنیر نے پاک فوج کے سربراہ کا چارج سنبھالا ہے اور پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی ہے ہماری مقامی سیاست کو ایک سائیڈ پر رکھ کر دیکھا جائے تو پاکستان میں ایک دفعہ پھر دہشت گردی کی کاروائیاں شروع ہوگئی ہیں۔ پاک فوج کے خلاف دہشت گردی کی جنگ جیسا بیانیہ نئے سرے سے میڈیا کے ذریعے اُچھالا جارہا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر اور پورے بلوچستان پر دہشت گردوں کی یلغار اور وسیع پیمانے بلوچستان میں قتل غارت مُلکی امن خراب کرنے کا ایک ایسا گرینڈ منصوبہ ہے جسے دیکھنے کا دُرست زاویہ یہ ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی کشمکش ہے جسے کا ذمہ دار پاک فوج کو قرار دیکر پاکستانی عوام کو گُمراہ کرکے پاک فوج کے خلاف اُکسایا جارہا ہے اور اس میں پاکستان کی ایک بڑی پارٹی کے اندر چُھپے ڈیجیٹل دہشت گرد اس آگ کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔ پاکستانی عوام کے جہاں تک مہنگائی اور معاشی بدحالی اور دیگر مسائل کا تعلق ہے وہ بالکل بجا ہیں اسی طرح مُحب وطن بلوچی عوام کے جائز حقوق جن کے حصول میں کئی بلوچی سیاست دان ہی رکاوٹ ہیں وہ بھی جائز ہیں لیکن یہ کہنا کہ بلوچستان کا حصہ پنجاب کھا جاتا ہے یا بلوچستان پر فوج اپنا کنٹرول رکھنا چاہتی ہے یہ سراسر گمراہی پر مبنی بیانیہ ہے۔
یہاں یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ سی پیک جیسا تجارتی روڈ لنک (Pivot History) جو یورپ سے نکل کر، اسرائیل اور مڈل ایسٹ ہوتا ہوا بھارت تک آتا ہے اس کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سی پیک کا مُتبادل قرار دے چُکا ہے۔ اسی طرح بھارت سی پیک اور گوادر پورٹ پراجیکٹ کو ناکام بنانے کے لیئے افغانستان سے ایرانی بندرگاہ “چاہ بار“ تک ایک روڈ تعمیر کرنے پر کثیر سرمایہ لگا چُکا ہے۔ گوادر پورٹ اتنی اہم ہے کہ اس کو تقسیم ہندوستان سے پہلے بھارت ایک دفعہ خریدنے کی کوشش کر چُکا ہے، اسی طرح افغانستان بھی اس پر ماضی میں قبضہ کرنے کی کوشش کر چُکا ہے اور پاکستان مخالفت کے دور میں روس بھی اسی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس وقت جب بلوچستان میں بین الاقوامی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے اس خطے پر پوری دُنیا کی نظریں ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بلاواسطہ یا بلواسطہ عمل دخل ہے۔ گویا پاکستان کا صوبہ بلوچستان “نیو گریٹ گیم“ میں ایک ایسا مرکز ہے جو بین الاقوامی میدان جنگ بنا ہوا ہے۔
پاکستان کی موجودہ حکومت اور پاکستانی افواج حالات کے مطابق بالکل صحیح سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ اس وقت موجودہ حکومت نے پاک فوج کو ملٹری آپریشن کے لیئے بیس ارب روپے کے فنڈز کے ساتھ دہشت گردوں کے ساتھ نپٹنے کے لیئے جو فری ہینڈ دیا ہے وہ درست اور بروقت اقدامات ہیں۔ پاکستانی عوام اور تمام سیاسی پارٹیوں کو چاہیئے کہ وہ اپنی سیاست ترک کرکے پاکستان کی بقا کی جنگ میں مُثبت کردار ادا کریں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کو میڈیا میں چُھپے اُن ڈیجیٹل دہشت گردوں جو پاکستانی عوام کو گمراہ کررہے کو چُن چُن کر کیفر کردار تک پہنچانے میں ذرا بھر بھی تامل نہیں ہونا چاہیئے۔ اسی طرح افواج پاکستان کو چاہیئے کہ وہ بلوچستان میں مُحب وطن بلوچیوں، دیگر صوبوں کے باسیوں اور بالخصوص زائرین کی حفاظت کی خاطر غیر مُلک کرائے کے قاتلوں اور پاکستان کے امن اور پاکستان کو تباہ کرنے والے ایجنٹو ں کے خلاف گرینڈ آپریشن کرکے ہمیشہ کے لیئے جڑ سے اُکھاڑ ڈالیں۔ یہ گھڑی اتحاد کی ہے اور اس میں ہر پاکستانی کو مُثبت انداز میں اپنا کردار نبھانے کی ضرورت ہے۔