از قلم
محمد ارسلان شیخ
28 مئی 1999 کو پہلا یوم تکبیر پاکستان میں بہت جوش و خروش سے منایا گیا,
اس وقت کراچی میں چار ضلعے ہوا کر دیتے ہیں تو شاہین اسکاؤٹس کی جانب سے ڈسٹرکٹ شرقی کے تمام سرکاری وپرائیویٹ اسکول میں اسکاؤٹ کے مختلف مقابلے ہوئے،
غالبا اس وقت میں گورنمنٹ اسکول میں پانچویں کلاس میں تھا جب میرے کلاس ٹیچر نے کہا کہ جو بچے تقریر میں حصہ لینا چاہتے ہیں اپنے گھر والوں کی معاونت سے تقریر لکھ کر لائیں اور جس کی تقریر اچھی ہوگی اسے ضلع شرقی کے مقابلوں میں حصہ لینے کا موقع ملے گا،
90کے دور کے کراچی کے نوجوانوں کی مثال ہی نہیں جناب وطن سے محبت، جوش و جذبے سے بھرپورسب اپنے اپنے گھر والوں کی مدد سے تقریر لکھ کر لائے، میں بھی اپنی مرحوم آنٹی جو کہ سیاست سے بھی وابستہ تھیں (ڈاکٹر کنیز فاطمہ مرحوم) ان کی مدد سے دو صفحات پر مبنی تقریر لکھ کر لے آیا اور اپنے کراچی والے انداز میں تقریر کی جو ہمارے ہیڈ سر مرحوم بخاری سر کو بھی بہت اچھی لگی اور یوں ضلع شرقی کے اس پروگرام میں شرکت کرنے کا شرف حاصل ہوا
اب میں ٹھہرا گورنمنٹ اسکول کا جب وہاں بڑے بڑے پرائیویٹ اور گورنمنٹ اسکول کے بچوں کا سامنا ہوا تو تھوڑی بہت کنفیوژن ہوئی مگر الحمدللہ اپنے پرجوش اور جذبے بھرے انداز سے تقریر کی اور یوں ضلع شرقی میں شاہین اسکاؤٹس کی جانب سے 1st پوزیشن حاصل کی,
یہ میرے لیے قابل فخر بات اس لیے بھی تھی کہ یہ یوم تکبیر پاکستان میں پہلی بار منایا جا رہا تھا 28 مئی 1998 کو چاگی کے مقام پر پانچ دھماکے جمعرات کا دن سہ پہر تین بج کر 40 منٹ یکے بعد دیگر دھماکے کر کے ہمسایہ دشمن ملک بھارت کا غرور خاک میں ملایا،
عالمی دباؤ کے باوجود وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے دور حکومت میں 28 مئی 1998 کو ڈاکٹر قدیر خان مرحوم اور ان کی ٹیم کا یہ کارنامہ قابل فخر اور ہماری تاریخ کا انمنٹ باب ہے
گزشتہ دور حکومتوں میں جس طرح دفاعی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائیاں،سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے ہوئے ہیں ان تمام معاملات کی وجہ سے نوجوانوں میں ملک وقوم کیلئے جوش و جذبہ پہلے ادوار کی نسبت ماند پڑنے لگا ہے
موجودہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کی جانب سے یوم تکبیر پر عام تعطیل دینا اور سرکاری سطح پر منانا خوش آئند ہے، اور یوم تکبیر کے دن کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے اچھا عمل ثابت ہو سکتا ہے اگر یوم تکبیر کے سلسلے میں تقریبات کا اہتمام کیا جائے تاکہ نوجوان نسل. اس دن کہ. اہمیت کو سمجھ سکے.