کربلائے ذات
خود احتسابی بہت تکلیف دہ امر ہے۔۔ خود اپنی ذات کی حقیقت اور لاحق بیماریوں کی تشخیص اور پھر علاج کئی بار بہت سے خوفناک حقائق جنہیں آپ شعوری طور پر نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں اور لاشعور میں پھینک رہے ہوتے ہیں ۔۔۔اس عمل کے دوران آپ کو اپنی ذات کے تعفن سے آشکار کر دیتے ہیں۔۔
10محرم کل گزری ہے۔۔۔ یہ تاریخ شہادت حضرت حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد دلاتی ہے۔۔۔ بقول مرشدی شیخ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین،دین پناہ است حسین
سر داد، نداد دست درِ دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
میں خود کو حسینی کہتا ہوں۔۔جس کی ایک وجہ تو اہل بیت اطہار کی محبت ہے تو دوسری طرف مرشد کریم شاہ امین الدین صابر رحمت اللہ علیہ کی نسبت سے نسبت قادری۔۔۔ قادری نسبت کے تحت بھی میں جناب حسین علیہ السلام سے نسبت رکھتا ہوں۔۔
بات ہو رہی تھی خود احتسابی کی۔میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کے ایک کربلا وہ ہے جو میدان کربلا میں لڑی گئی اور ایک کربلا وہ ہے جو ایک سالک حق کی ذات میں لڑی جاتی ہے۔۔۔ اس کربلا میں محبان حسین علیہ السلام خود اپنی ذات کے ابن زیاد اور شمر سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔۔۔ یہ جنگ اپنی ذات کی علتون اور نفس کی ناجائز خواہشات کے خلاف لڑی جاتی ہے۔۔۔
آپ کیسے خود کو نسبت حسینی کا اہل قرار دے سکتے ہیں جب اپنی ذات میں آپ نفس پرست اور علتوں کی جکڑ میں ہوں اور اس پر آپ ان سے نکلنے کی خواہش بھی نہ رکھتے ہوں۔۔ یعنی زبان سے حسین کا ذکر اور اندر سے کوفہ والوں کی پالیسی بذات خود خود فریبی کی چغلی کھاتی ہے۔۔۔
جناب حسین ابن علی کرم اللہ وجہ کا فرمان پاک ہے۔۔ “اگر تم دنیا میں تبدیلی لانا چاہتے ہو تو تہذیب نفس کا آغاز اپنی ذات سے کرو، دنیا بدل جائے گی”۔۔ حسینیت ظالمانہ نظام کے خلاف حق کے لئے ڈٹ جانے کا نام ہے۔۔لیکن اُسے کیا کہیں جو اپنی ذات میں قائم بے عدلی کے خلاف ڈٹ نہ سکے اور اندر کی نفس پرستی اور علتون کی غلامی سے کنی کترائے۔۔
صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدرو حنین بھی ہے عشق