نیوز ڈیسک: بیورو رپورٹ
بانی و چئیرمن جناح کا سفید انقلاب ڈاکٹر صادق علی سید صاحب نے کور کمیٹی اراکین و دیگر ساتھیوں سے آڈیو لنک خطاب کے زریعے ملک میں موجود نئی آئینی ترامیم کے معاملات پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور بتایا کہ پاکستانی قوم اور ارباب اختیار کی اکثریت اس غلط فہمی کا شکار ہے اور خصوصاً سیاستدان عوام الناس کو اس گمراہی میں مبتلا کیے ہوئے ہیں کہ پارلیمنٹ عدلیہ سے افضل ہے اس لیے وہ جب چاہیں جس طرح چاہیں آئین پاکستان میں ردوبدل کا اختیار رکھتے ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے، اصل با اختیار اور خودمختار ادارہ عدلیہ ہے نا کہ پارلیمنٹ، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ عدلیہ نے پارلیمانی نظام کے تحت قائم ہونے والی پارلیمنٹ کو مختلف مواقع پر معطل بھی کیا اور بحال بھی مزید برآں پارلیمنٹ کے منتخب وزراء اعظم کو بھی معطل اور بحال کیا ہے۔ اور منتخب وزراء اعظم کو آئینی و قانونی سزاؤں کے فیصلے بھی جاری کیے ہیں۔
ڈاکٹر صادق علی سید صاحب نے کہا کہ وہ ایک خوشحال اور متحد پاکستان کے
لیے علامہ اقبال اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے وژن کو ژندہ کرنے کے لیے ثابت قدمی سے کام کر رہے ہیں۔
9 ستمبر 2024 کو مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسی کے لائیو خطاب اور جنرل سید عاصم منیر کے ناقابل
تسخیر جذبے سے متاثر ہو کر، میں قوم کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہوں۔
تاہم میں آج آپ کو بدامنی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے بارے میں انتہائی تشویش کے ساتھ بتا رہا ہوں، جو کچھ
سیاسی جماعتوں کی طرف سے حالیہ اشتعال انگیز بیان بازی سے بڑھ گیا ہے۔ میں بڑھتی ہوئی بے چینی کے ساتھ پرتشدد
تصادم کا خدشہ محسوس کررہا ہوں، جسے اگر روکا نہ گیا تو یہ خانہ جنگی کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اس طرح کے سانحے کا
اندیشہ مجھے بولنے پر مجبور کرتا ہے، کیونکہ میرا ماننا ہے کہ کسی بھی جان کا ضیاع انسانیت کی ناکامی ہے۔
پارلیمانی نظام حکومت میں پارلیمنٹ کا کام صرف قانون کو تجویز کرنا ہے، تجویز شدہ قانون کو نافذ کرنے یا مسترد کرنے کا آئینی اختیار صرف عدلیہ کو ہے۔
پارلیمنٹ کوئی بھی قانون آئین کی شق نمبر 2, 2A، کی روشنی میں قرآن مجید کے احکامات اور بنیادی انسانی حقوق، قرارداد مقاصد، قائد اعظم کے فرمودات، آئینی بصیرت اور عدل سے متصادم مرتب یا تجویز نہیں کر سکتی اگر کوئی ترمیم یا قانون مرتب کر بھی لے تو عدلیہ اسے فلفور مسترد کرنے میں با اختیار اور پابند ہے۔
ڈاکٹر صادق علی سید صاحب نے مزید کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ان کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن 149/2022 کی جلد از جلد سماعت کے لیے تاریخ مقرر کی جائے تا کہ وہ عدالت عظمیٰ کو یہ واضح کر سکیں کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی 10 جولائی 1947 کو لکھی گئی آئینی وصیت کے مطابق موجودہ پارلیمانی نظام کے جن خطرات کی نشاندہی اپنی تحریر میں کی تھی اس کے ثمرات اب کھل کر سامنے آ چکے ہیں، اور پاکستان کی خوشحالی اور عوام الناس کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے قائد اعظم کا تجویز کردہ صدارتی نظام رائج کیا جائے۔
یہاں یہ امر انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ البقرہ، النساء اور المائدہ میں وصیت کے مطابق عملدرآمد کو یقینی بنانے کے احکامات دیے ہیں۔
وکلاء تحریک کے ممکنہ آغاز سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صادق علی سید صاحب نے کہا کہ تمام سینئر وکلاء، بیرسٹرز اور ججز کو یہ سمجھانے کی اشد ضرورت ہے کہ موجودہ پارلیمانی نظام جمہوریت کی نفی ہے کیونکہ اس کی بنیاد جمہوریت کی اصل روح، متناسب نمائندگی سے محروم ہے۔ اس وضاحت کے لیے ڈاکٹر صادق علی سید صاحب جو ان دنوں اہلیہ کے علاج کے سبب برطانیہ میں مقیم ہیں آڈیو لنک کے ذریعے تمام بار کونسلز سے خطاب کر کے مکمل رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ وکلاء تحریک کے معززین سے گزارش ہے کہ وکلاء کنونشن میں خطاب کے لیے انہیں مدعو کیا جائے تا کہ وہ شعور عدل، Jurisprudence کی مکمل تشریح، آئین و قانون مرتب کرنے کے اصل طریقہ کار سے آگاہ کر سکیں۔
موجودہ آئین میں متعدد شقیں قرآن مجید اور بنیادی حقوق سے متصادم ہیں انہیں آئین سے حزف کرنے کی ضرورت ہے ناں کہ اس میں ترامیم کر کے اشرافیہ کو سہولت کاری فراہم کی جائے۔
سود کا نظام، صدر، وزیراعظم اور دیگر اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کو استثنیٰ، چوری لوٹ مار اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کو تحفظ فراہم کرنے والے نیب قوانین، جرائم کی پردہ پوشی کے لئے قانون سازی نہ صرف آئینی جرم ہے بلکہ قرآن مجید کے احکامات اور بنیادی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔