(میاں شریف زاہد )
میڈم پونم ناز نے کہا ہمارے معاشرے میں ایک عجیب رواج ہے کہ گلوکار اور فنکار کو اکثر بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ سوچ حقیقت نہیں بلکہ وہم اور تنگ نظری کا شاخسانہ ہے۔ فنکار وہ چراغ ہیں جو اندھیروں میں روشنی پھیلاتے ہیں، وہ آواز ہیں جو غمگین دلوں کو سکون دیتی ہے، اور وہ رنگ ہیں جو زندگی کو خوشیوں سے بھر دیتے ہیں۔اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمارے صوفیائے کرام نے محبت اور امن کا پیغام موسیقی اور شاعری کے ذریعے عام کیا۔ بلھے شاہ، شاہ حسین اور وارث شاہ جیسے عظیم ہستیاں آج بھی اپنے فن کی بدولت دلوں پر راج کر رہی ہیں۔ نعت خوان، قوال اور گلوکار جب اپنی آواز بلند کرتے ہیں تو دلوں پر اثر ہوتا ہے اور روح کو سکون ملتا ہے۔ کیا یہ سب برائی ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔اصل حقیقت یہ ہے کہ فنکار معاشرے کے محسن ہیں۔ وہ غموں سے بوجھل دلوں کو مسکراہٹ دیتے ہیں، وہ نفرتوں میں پھنسی ہوئی دنیا کو محبت کا سبق دیتے ہیں، اور وہ اپنے فن کے ذریعے ملک و قوم کی پہچان بنتے ہیں۔ دنیا میں پاکستان کا نام جن فنکاروں نے روشن کیا ہے، وہ ہماری تاریخ کا فخر ہیں۔بدقسمتی سے کچھ لوگ محض اپنی محدود سوچ کے باعث فنکار کو کمتر سمجھتے ہیں، مگر معاشرے کی ترقی اور حسن، فن کے بغیر نامکمل ہے۔ جس طرح پھول بغیر خوشبو کے ادھورے لگتے ہیں، ویسے ہی انسانیت بغیر فن کے بے رنگ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی سوچ بدلیں، فن اور فنکار کو عزت دیں، اور یہ تسلیم کریں کہ فنکار دلوں کو جوڑنے والے اور معاشرے کو سنوارنے والے حقیقی ہیرو ہیں۔