کیمیائی کھادوں کے بے تحاشا استعمال سے مٹی کی زرخیزی دم توڑ رہی ہے، سندھ کی زراعت بحال کرنے کیلئے کسانوں کی*کیمیائی کھادوں کے بے تحاشا استعمال سے مٹی کی زرخیزی دم توڑ رہی ہے، سندھ کی زراعت بحال کرنے کیلئے کسانوں کی اصلاح کرنی ہوگی:ماہرین کا خطاب
ٹنڈوجام (رپورٹ عمران مشتاق) ملکی و بین الاقوامی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان میں کیمیائی کھادوں کے بے تحاشا اور غیر ضروری استعمال سے مٹی کی صحت تیزی سے تباہ ہو رہی ہے، اور اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ قومی زرعی بحران کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ مستقبل کی نسلوں کے لیے زمین کو زرخیز اور پائیدار بنانے کے لیے ری جنریٹو ایگریکلچر، بایو ڈائیورسٹی کی بحالی اور ورمی کمپوسٹ کے فروغ کی فوری ضرورت ہے۔سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام میں ’’سائل ہیلتھ ویک 2025‘‘ کے عنوان سے اور ’’سندھ ازسرنو بحالی – کل کے لیے کاشت‘‘ کے موضوع پر خصوصی سیمینار منعقد ہوا، جسے یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف سوائل سائنس نے ٹراش اِٹ کے تعاون سے ترتیب دیا گیا تھا۔اس موقع پر اپنے خطاب کے دوران وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے کہا کہ کیمیائی کھادوں پر انحصار اور زیادہ پیداوار کی خواہش نے زرعی زمین کی پیداواری صلاحیت کو محدود کر دیا ہے، جو مستقبل میں ایک بڑے سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔اس لئے کسانوں کی سوچ کو بدلنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہر سال اربوں ڈالر کی کیمیکلز پر خرچ کر رہا ہے، اس لیے وقت آ گیا ہے کہ کسانوں کو قدرتی اور ماحول دوست کمپوسٹ کے طریقوں کی طرف راغب کیا جائے،برطانیہ کے ممتاز زرعی ماہر اور سوائل فوڈ ویب مینٹور نِک پیڈوک نے اپنے مقالے اورسولات کے جواب کے دوران کہا کہ پاکستان، بالخصوص سندھ، کو فوری طور پر مٹی کے خوردبینی جانداروں کی بحالی اور ری جنریٹو فارمنگ جیسے جدید طریقوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’’400 سے زائد مٹی کے نمونوں میں بیکٹیریا کی اکثریت پائی گئی، جبکہ فنگس، پروٹوزوا اور نیمیٹوڈز نہ ہونے کے برابر تھے۔ یہ عدم توازن معدنیات کے جذب اور پانی کے داخلے کے نظام کو کمزور کرتا ہے، نِک پیڈوک کے مطابق مٹی میں نامیاتی مادہ، ورمی کمپوسٹ اور متوازن کمپوسٹ شامل کرنے سے زمین کی زرخیزی بحال اور پانی کا مؤثر استعمال ممکن ہے، جو سندھ جیسے خطے کے لیے نہایت ضروری ہے جہاں پانی کی کمی اور سیم و تھور کے مسائل عام ہیں۔ترقی پسند کسان خالد مقصود نے اپنے کامیاب تجربات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ورمی کمپوسٹ کے استعمال سے زمین کی صحت، فصلوں کی نشوونما اور پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی زمین اب سندھ زرعی یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے تحقیقی فیلڈ کا کردار ادا کر رہی ہے اور مقامی کسانوں کو بھی عملی تربیت دی جا رہی ہے۔ڈین فیکلٹی آف کراپ پروڈکشن پروفیسر ڈاکٹر عنایت اللہ راجپر نے کہا کہ اگر سندھ میں سیم و تھور کے خاتمے، پانی کے مؤثر استعمال اور مٹی میں نامیاتی مادے کے اضافے پر توجہ دی جائے تو زرعی زمین کی پیداواری صلاحیت بحال ہو سکتی ہے، ساتھ ہی فوڈ سکیورٹی اور ماحولیاتی تحفظ کے اہداف بھی حاصل ہوں گے، اس موقع پر ڈائریکٹر ٹراش اِٹ راہول رائےنے کہا کہ زرعی نظام کو مضبوط اور پائیدار بنانے کے لیے مٹی کی بایو ڈائیورسٹی، کمپوسٹ کے استعمال اور کلائمٹ اسمارٹ فارمنگ پر عمل ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹراش اِٹ کسانوں کو کیمیکلز سے انحصار ختم کرنے اور ماحول دوست زرعی ماڈلز اپنانے کے لیے عملی معاونت فراہم کر رہا ہے۔تقریب میں ڈاکٹر اللہ ودھایو گانداہی نے شرکاء کا خیرمقدم کیا جبکہ ڈاکٹر صائمہ کلثوم بابر نے بھی خطاب کیا۔ آخر میں سوال و جواب کا سیشن ہوا اور شرکاء میں شیلڈز تقسیم کی گئیں۔ اصلاح کرنی ہوگی:ماہرین کا خطاب*
ٹنڈوجام (پریس ریلیز) ملکی و بین الاقوامی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان میں کیمیائی کھادوں کے بے تحاشا اور غیر ضروری استعمال سے مٹی کی صحت تیزی سے تباہ ہو رہی ہے، اور اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ قومی زرعی بحران کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ مستقبل کی نسلوں کے لیے زمین کو زرخیز اور پائیدار بنانے کے لیے ری جنریٹو ایگریکلچر، بایو ڈائیورسٹی کی بحالی اور ورمی کمپوسٹ کے فروغ کی فوری ضرورت ہے۔سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام میں ’’سائل ہیلتھ ویک 2025‘‘ کے عنوان سے اور ’’سندھ ازسرنو بحالی – کل کے لیے کاشت‘‘ کے موضوع پر خصوصی سیمینار منعقد ہوا، جسے یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف سوائل سائنس نے ٹراش اِٹ کے تعاون سے ترتیب دیا گیا تھا۔اس موقع پر اپنے خطاب کے دوران وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے کہا کہ کیمیائی کھادوں پر انحصار اور زیادہ پیداوار کی خواہش نے زرعی زمین کی پیداواری صلاحیت کو محدود کر دیا ہے، جو مستقبل میں ایک بڑے سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔اس لئے کسانوں کی سوچ کو بدلنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہر سال اربوں ڈالر کی کیمیکلز پر خرچ کر رہا ہے، اس لیے وقت آ گیا ہے کہ کسانوں کو قدرتی اور ماحول دوست کمپوسٹ کے طریقوں کی طرف راغب کیا جائے،برطانیہ کے ممتاز زرعی ماہر اور سوائل فوڈ ویب مینٹور نِک پیڈوک نے اپنے مقالے اورسولات کے جواب کے دوران کہا کہ پاکستان، بالخصوص سندھ، کو فوری طور پر مٹی کے خوردبینی جانداروں کی بحالی اور ری جنریٹو فارمنگ جیسے جدید طریقوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’’400 سے زائد مٹی کے نمونوں میں بیکٹیریا کی اکثریت پائی گئی، جبکہ فنگس، پروٹوزوا اور نیمیٹوڈز نہ ہونے کے برابر تھے۔ یہ عدم توازن معدنیات کے جذب اور پانی کے داخلے کے نظام کو کمزور کرتا ہے، نِک پیڈوک کے مطابق مٹی میں نامیاتی مادہ، ورمی کمپوسٹ اور متوازن کمپوسٹ شامل کرنے سے زمین کی زرخیزی بحال اور پانی کا مؤثر استعمال ممکن ہے، جو سندھ جیسے خطے کے لیے نہایت ضروری ہے جہاں پانی کی کمی اور سیم و تھور کے مسائل عام ہیں۔ترقی پسند کسان خالد مقصود نے اپنے کامیاب تجربات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ورمی کمپوسٹ کے استعمال سے زمین کی صحت، فصلوں کی نشوونما اور پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی زمین اب سندھ زرعی یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے تحقیقی فیلڈ کا کردار ادا کر رہی ہے اور مقامی کسانوں کو بھی عملی تربیت دی جا رہی ہے۔ڈین فیکلٹی آف کراپ پروڈکشن پروفیسر ڈاکٹر عنایت اللہ راجپر نے کہا کہ اگر سندھ میں سیم و تھور کے خاتمے، پانی کے مؤثر استعمال اور مٹی میں نامیاتی مادے کے اضافے پر توجہ دی جائے تو زرعی زمین کی پیداواری صلاحیت بحال ہو سکتی ہے، ساتھ ہی فوڈ سکیورٹی اور ماحولیاتی تحفظ کے اہداف بھی حاصل ہوں گے، اس موقع پر ڈائریکٹر ٹراش اِٹ راہول رائےنے کہا کہ زرعی نظام کو مضبوط اور پائیدار بنانے کے لیے مٹی کی بایو ڈائیورسٹی، کمپوسٹ کے استعمال اور کلائمٹ اسمارٹ فارمنگ پر عمل ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹراش اِٹ کسانوں کو کیمیکلز سے انحصار ختم کرنے اور ماحول دوست زرعی ماڈلز اپنانے کے لیے عملی معاونت فراہم کر رہا ہے۔تقریب میں ڈاکٹر اللہ ودھایو گانداہی نے شرکاء کا خیرمقدم کیا جبکہ ڈاکٹر صائمہ کلثوم بابر نے بھی خطاب کیا۔ آخر میں سوال و جواب کا سیشن ہوا اور شرکاء میں شیلڈز تقسیم کی گئیں۔