(رپورٹ ای این آئی)اگر سند کی تصدیق شرط ہے، تو پرکھ جسٹس جہانگیری کی نہیں، جسٹس ڈوگر کی ہونی چاہیے
پاکستانی عدلیہ کے ادارہ جاتی زوال کی کا اندازہ کیجئے کہ جسٹس جہانگیری کے اختیارات بحالی کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ کو “توقع” اور ایک جج کو ایڈیشل نوٹ میں “ہدایات” جاری کرنی پڑی کہ ہائی کورٹ سب سے پہلے دفتر کے اعتراضات پر فیصلہ کرے اور پھر قانون کے مطابق آگے بڑھے۔ اور یہ بھی کہ عدالت جسٹس جہانگیری کو سنے بغیر فیصلہ نہیں دے سکتی، گویا انصاف کے سب سے بنیادی اصول “منصفانہ حق سماعت ” کو بھی اب نوٹیفائی کرنا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔
عدالتی طریقہ کار میں یہ وہ بنیادی جزیات ہیں جو ایک لاء کالج کے طالب علم، ایک صحافی اور ایک عام شہری تک کو معلوم ہوتی ہے۔ لیکن یہ اصول ایک ایسے شخص کو یاد دلانا پڑ رہا ہے جو اسلام آباد ہائیکورٹ جیسی آئینی عدالت کا سربراہ ہے، جسے میرٹ پر نہیں بلکہ 15ویں نمبر س لا کر مسلط کیا گیا۔
یہ معاملہ کسی عام شہری کا نہیں بلکہ ایک ہائی کورٹ کے جج کے کیس میں ہوا ، جس کا “جرم” صرف یہ ہے کہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیتا، تابعداری نہیں کرتا، اور اپنے حلف، آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتا ہے، ایسی غلطی کوئی پڑھا لکھا قانون سے واقف جوڈیشل افسر کو چیف جسٹس ہو کیسے کرسکتا ہے؟ اصولا تو اب یہ ہونا چاہئے کہ ڈگری کی جانچ جسٹس جہانگیری کی نہیں جسٹس سرفراز ڈوگر کی ہونی چاہئے، کیونکہ جو بات ایک طالب علم سمجھتا ہے، وہ اگر آئینی عدالت کے سربراہ کو سمجھ نہیں آتی، سوال قانون پر نہیں، اہلیت پر اٹھتا ہے۔