وہ میرا رونقِ محفل اور میرا حاصل کہاں ہے؟
تحریر: میجر (ر) ساجد مسعود صادق نظامی
طائرانہ حالاتِ زندگی
حضرت خواجہ معظم الدینؒ (خواجہ شمس العارفین سیالویؒ کے خلیفہ اعظم) کے پڑپوتے، حضرت خواجہ حافظ جمال الدین معظمیؒ کے فرزندِ ارجمند، پیرِ شریعت اور رہبرِ طریقت خواجہ محمد قمرالدین سیالوی کے خلیفہ خاص، مُفسر قرآن، سیرت نگار اور صوفی بزرگ پیر کرم شاہ صاحبؒ کے شاگردِ نایاب اور مُفسر قرآن مُفتی احمد یار نعیمیؒ کے قریبی دوست “حضرت خواجہ محمد بشیرالدین معظمیؒ” 27 رجب سن 1360ء اور عیسوی کیلنڈر کے مطابق 18 نومبر سن 1941ء کو بروز منگل شب معراج کی رات معظم آباد شریف میں پیدا ہوئے۔ 1955ء میں آپؒ نے مڈل کلاس، 1959ء سے 1965ء تک مدرسہ جامع غوثیہ بھیرہ سے ادیب عربی کا کورس، سن 1961ء اور سن 1962 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ آپؒ 17 اپریل 1965ء سے 20 جنوری1967ء تک خواجہ محمد قمرالدین سیالویؒ کی خدمتِ میں حاضر رہے جنہوں آپؒ سے امامت اور خطابت بھی کروائی۔ آپؒ 1968/1967ء میں جامعہ غوثیہ رضویہ مصباح العلوم جڑانوالہ سے دورہ حدیث مکمل کرنے کے بعد اُسی مدرسے اور سن 1969ء میں جامعہ رضویہ (فیصل آباد) میں بھی استاد رہے۔
1969ء میں غوثیہ مسجد چوک پاکستان گجرات، 1974ء میں ” مسجدِ ضیاء معظم آباد ” اور سن 1979ء میں بھلوال میں کُچھ عرصہ امامت و خطابت کی۔ 18 جون 1979ء کو انگلینڈ تشریف لے گئے جہاں سے 7 اگست 1981ء تک امامت و خطابت کے دوران
بیس بچوں کو قرآن پاک حفظ کرواکر اکتوبر 1980ء کو حجِ بیت اللّٰہ کو روانہ ہوئے۔ 1982ء گجرات دوبارہ تشریف لائے۔ واپسی پر گجرات کی ایک بیوہ خاتون مسماة اللّٰہ رکھی نے گورنمنٹ ڈگری کالج گجرات کے سامنے آپؒ کو 38 مرلے کا ایک پلاٹ پیش کیا آج جس پر آج نظامی مسجد اور دارالعلوم “قمر العلوم” قائم ہے۔ قمرالعلوم کے سامنے سے گُزرنے والی شاہراہ کو” قمرسیالوی روڈ” کا نام بھی آپؒ نے ہی دیا۔
زندگی کا مشن و مقصد احیائے شریعت و سُنت
آپ کی ساری زندگی کے مطالعہ کا حاصل یہ ہے کہ آپ پیدا ہی دین حنیف کی خدمت کے لیئے ہوئے۔ نوعمری میں ہی احیائے سُنت خیرالانام ﷺ کی تحریک کا آپؒ نے معظم آباد شریف میں آغاز کیا جس میں دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں لوگ شامل ہوتے چلے گئے۔ اپنی 87 سالہ زندگی میں آپؒ نے دین سیکھنے اور سکھانے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں کیا۔ آپ کا ہر قول اور فعل سُنت نبوی ﷺ سے عبارت تھا۔ اُٹھتے بیٹھتے سوائے ذکر و فکر الہی کے کوئی کام نہیں تھا۔ اپنے 45 سالہ گجرات میں قیام کے دوران درجن بھر مدرسے اور مساجد تعمیر کروائیں۔ ہزاروں لوگوں کو سُنت نبوی ﷺ کا پیکر بنا کر صراط مُستقیم کی راہ دکھلائی۔ آج آپؒ کے ہزاروں شاگرد دُنیا کے کونے کونے میں محدث، مفسر ، معلم اور امام و خطیب بن کر دین کی خدمت کررہے ہیں۔ آپؒ بیعت کے بعد اپنے ہر مُرید کو نماز باجماعت پنجگانہ، دن میں پانچ سو دفعہ آپ ﷺ کی ذات مبارکہ پر درود وسلام ، وضو مُسواک کے ساتھ اور سُنت و شریعت پر مُستقیم ہونے کی تلقین فرمایا کرتے۔ گاڑی کا نمبر ہمیشہ “92” نمبر رکھتے جو آپ ﷺ کا اعداد کے مطابق اسم مبارک ہے۔ آپ کے موبائل نمبر میں بھی “92” کا ہندسہ نمایاں تھا۔
اخلاق کریمہ،گُفتار اور اندازِ پندو نصائح
آپ گُفتگو بہت کم کرتے جب بولتے تو آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر۔ آپؒ کے اخلاق کریمہ کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی چھوٹے بڑے کوتُم اور تُو کی بجائے “آپ” سے مخاطب کرتے۔ پورے ہفتے میں ایک دفعہ جمعة المبارک کو نظامی مسجد کے ممبر پر رونق افروز ہوتے اور قرآن کریم اور حدیث نبوی ﷺسے خطاب فرماتے۔ زبان میں تاثیر اتنی اور گُفتگو ایسی کہ جس نے ایک دفعہ اُن کی امامت میں جمعہ پڑھا یا ان کی تقریر سُنی اُس کی نظر میں پھر اور کوئی امام اور خطیب بھایا ہی نہیں۔ آپؒ کا خطاب سُننے لوگ پاکستان کے طول عرض سے آتے اور ایک بجے تک نظام مسجد کے ہال میں تلِ دھرنے کی جگہ نہ ملتی۔ سامع تقریر کے دوران مکة المکرمہ اور مدینہ طیبہ کی وادیوں میں سیر کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ اور اصحابہ اکرام رضی اللّٰہ عنہم اجمعین کی محفل میں جا پہنچتا۔
طلباء، علماء، صلحاء اور سیؔد سادات سے محبت وادب
اپنی عمر مبارک کے آخری ایام میں بھی بعض اوقات چھوٹے چھوٹے طلباء کو کبھی کبھار خود پڑھاتے۔ علماء کو ہمیشہ اپنی محفل میں اگلی صف اور اپنے قریب جگہ دیتے۔ صالحین سے محبت اور ان کا ادب ایسے لگتا جیسے ان کی گھٹی میں شامل تھا۔ ان کے کمرے میں ایک بیڈ اور ایک ہی سنگل سیٹ صوفہ رہتا جب کوئی سیدزاد (خواہ وہ مُرید ہی کیوں نہ ہو) آتا یا وہ خود نیچے بیٹھ جاتے یا اُس کے لیئے کُرسی منگوالیتے ۔ پاکستان کے طول و عرض سے مشائخ اُن کی ملاقات اور زیارت کے لیئے جب تشریف لاتے تو ان کے خصوصی ادب و احترام، آرام و قیام کا بندوبست کیا جاتا۔ انہی خلائقِ کریمہ کی تلقین وہ اپنے مُریدین کو بھی کیا کرتے۔
مطبوعات اور علم سے دلچسپی
آپؒ نے ساری زندگی قرآن و حدیث نبوی ﷺ پڑھتے پڑھاتے گُذاری۔ روزانہ فجر کی نماذ سے پہلے ایک پارہ قرآن کریم کی تلاوت آپ کا معمول تھا۔ حتٰی کے اپنے آخری ایّام میں بھی دارالعلوم کے چھوٹے چھوٹے طلباء کو اکثر اپنے کمرے میں بُلا کر پڑھایا کرتا تھا۔ آپ کی تصانیف میں 17کتابیں شامل ہیں جن میں جن میں سے حدیثِ نبویہ ﷺ پر مبنی ذکرواذکار اور عقائد پر مبنی کتاب الاذکار من الاذکار ، تین جلدوں پر مُشتمل حدیث نبویہ ﷺ پر مبنی کتاب الصراط المُستقیم، صوفیانہ طرز پر ذاتی معمولات پر مبنی کتاب معمولات شب وروز اور فقہی مسائل پر تقبیل الیدین والرجلین چھپ چُکی ہیں جبکہ باقی چھپ رہی ہیں۔ آپ زیادہ تر کتابیں عربی اور فارسی میں ہی پڑھتے اور اہم اور چیدہ چہدہ حوالہ جات نوٹ فرمالیتے جو ان کی تحقیق کا ورثہ آج کتابوں کی صورت میں چھپ رہا ہے۔
مال و دولت، عہدوں اور دُنیا سے بے رغبتی
والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے مال و دولت جائیداد کی کوئی کمی نہ تھی، دُنیاوی عہدیداروں سے ہرگز مرغوب نہ ہوتے اُن کی محفل میں بڑے بڑے مال ودولت والے، سرکاری سویلین اور فوجی افسر حاضر خدمت ہوتے۔ لاکھوں کے نذارنے لوگ پیش کرتے جن کو وہ مریدین میں ہی بانٹ دیا کرتے۔ سادہ اور بیش قیمت شلوار کُرتا اور سر پر اکثر چہار ترکی کپڑے کی بنی ٹوپی پہنتے۔ بہترین سے بہترین گاڑی رکھتے۔تعلق کی بُنیاد غربت و امارت، عہدوں کی بجائے علم وعمل اور شریعت نبوی ﷺ کی پیروی پر رکھتے۔ غریب پرور ہوتے ہوئےمحبت کرنے والوں کی قدر کرتے۔ آپؒ کی محفل میں غریب و امیر اور بڑے بڑے عہدیدار سب برابر اور با ادب بیٹھتے۔ وقت سے بہت پہلے تمام جائیداد و دولت اپنے صاحبزادوں کے سُپرد کرکے بیٹھ گئے۔ حتٰی کہ مدفون کی جگہ بھی مقرر کردی۔
صاحبِ کشف وکرامات اور مُستجاب الدعوات
اگرچہ وہ کرامت کے ظہور کو ناپسند فرماتے لیکن ان کی محفل میں کثرت سے اُٹھنے بیٹھنے والے سب جانتے ہیں کہ وہ نہ صرف کشف و کرامت کے حامل تھے بلکہ دل کے محسوسات تک اُن کی رسائی ہوتی۔ بسا اوقات وقت سے پہلے ایسی بات کرتے جو پوری ہوجاتی۔آپؒ کے قریبی کئی لوگ ایسے ہیں جو یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ آپؒ کے دعا کے بعد اللّٰہ نے اُن کو نعمتوں سے نوازا اور اُن کے حالات بدل گئے۔ اُن کی اصل کرامت سُنت مصطفٰے ﷺ پر استقامت تھی۔ آپؒ نے اپنی آخری نماز (جو نماز عشاء تھی) انہوں نے باجماعت پڑھی اور وقتِ آخرت سے پہلے مُسواک بھی کی۔ آپؒ کے الفاظ دلوں اور دُنیاوی امراض کی شفا، دلوں کی تسکین اور دوسروں کے لیئے باعث خیر وبرکت ہوتے۔ آج کئی لوگ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپؒ کے اُٹھے ہاتھوں کی وجہ سے بارگاہ الہی سے اُن کی حاجت روائی ہوئی اور اُن کی مراد پوری ہوئی
تنہائی اور خلوت نشینی
صاحبزادوں کے فرائض منصبی سنبھالنے کے بعد آپ نے باقی ساری زندگی خلوت اور گوشہ نشینی میں گُذاری۔ بہت کم سفر کو نکلتے۔ ہر ماہ پاک پتن شریف اور رمضان المبارک کی سترہ تاریخ کو سیال شریف اپنے خواجہؒ کے مزار پر جانا آپ کے معمولات کا حصہ تھا۔ آپؒ کا تقریبات میں شرکت فرمانا نہ ہونے کے برابر تھا ۔ ابتدائی زندگی بھرپور محنت و مشقت میں گذاری لیکن زندگی کے آخری ایام میں ایسے لگتا تھا جیسے گوشہ نشینی اور خلوت نشینی سے آپؒ کو پیار تھا۔زندگی بھر کسی سیاسی یا اور کسی قسم کی مصروفیت میں حصہ لینے سے گریز کرتے رہے۔ آخری ایام میں موبائل فون کا استعمال بھی ترک کردیا۔ نظامی مسجد اور قمرالعلوم میں انٹرنیٹ کے سگنل جام کرنے کے لیئے جیمر لگوا رکھا تھا جو نماز اور جمعة المبارک کی تقریر کے دوران آن کردیا جاتا۔ تنہائی میں ہر وقت ذکر وفکر اور یاد الہی میں مصروف رہتے۔ آپؒ کے موبائل کی ٹون پر بھی “جگہ جی لگانے کی یہ دُنیا نہیں ہے” کی ٹون سیٹ تھی۔
افواجِ پاکستان سے بے پناہ محبت
افواج پاکستان سے ان کی محبت لازوال تھی۔ فوج کے لیئے ہروقت دعا گو رہتے اور اندرونی وبیرونی محاذوں پر لڑنے والوں کی سلامتی کے لیئے ہمیشہ دعا گو رہتے۔ فوج کا ڈسپلن اور کنٹونمنٹ کا ماحول آپؒ کو خصوصی پسند تھا جس کی بہت تعریف کرتے۔ آپ اکثرعلامہ اقبال کا یہ شعر پڑھتے “الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن ۔۔۔ مُلّا کی اذاں اور، مجاہد کی اذاں اور۔” گجرات میں مقیم ہونے کے بعد زندگی بھر اپنے ممبر کے سوا کہیں خطاب نہیں کیا لیکن ایک دفعہ زندگی میں ایک فوجی یونٹ کے خطیب کی دعوت پر خطاب کیا۔ خطاب پر جب تشریف لائے تو پوری یونٹ کے جوانوں کے لیئے فروٹ کی پیٹیاں لائے۔ خطاب کے بعد یہ حال تھا کہ یونٹ کے افسرو جوان سب اُن کے ہاتھ چومتے اور ان سے لپٹنے کی کوشش کرتے۔
نسبتوں کا احترام اور عجزو نیاز
اجمیر شریف، تونسہ شریف، پاکپتن یا سیال شریف کے مہمانوں کی آمد پر آپ کا ادب اور عجز ونیاز دیکھنے کے قابل ہوتا۔ اکثر دیکھا گیا کہ جہاں وہ خود تشریف فرماہوتے اپنی جگہ چھوڑ کر دیوان مسعود صاحب زید مجدہ ( سجادہ نشین پاک پتن شریف) جو آپ سے عمر کے مطابق کم از کم پچاس سال چھوٹے ہوں گے کو وہاں بٹھاتے اور اُن کے سامنے دو زانوں ہاتھ جوڑ کر ادب سے بیٹھ جاتے۔ آپ کا کوئی خطاب اور کوئی محفل ایسی نہیں جس میں حضرت خواجہ قمرالدین سیالویؒ کا آپ ذکر نہ فرماتے ہوں۔ صالحین کے ادب وآداب کے سب طور طریقے آپ کی عادتِ شریفہ میں سمائے ہوئے تھے۔
آپؒ کے اقوال زرّیں
ویسے تو آپؒ کا ہر لفظ ہی باعث خیر وحکمت سے بھرپور ہوتا۔ آپؒ کی گُفتگو کےموضوعات میں آیات قرآنی احدیث نبویہﷺ اور صالحین کے اقوال کے علاوہ کُچھ بھی نہیں تھا۔ بابا فرید الدین گنج شکرؒ اور خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کی زندگی کے تمام حالات آپؒ ایسے بیان کرتے جیسے نظروں سے دیکھ کر بیان کیا جاتا ہے۔ آپؒ کے چیدہ چیدہ فرمودات میں “عقیدے کی پختگی کے بعد عبادات کی بجا آوری اور معاملات کی ادائیگی سے معرفت کا گوہر نصیب ہوتا ہے”، “صراط مُستقیم عابد و معبود کے درمیان أقرب ترین راستہ ہے”، “اتباع رسالت مآب ﷺ کے بغیر عشق قابل اعتبار نہیں ہوتا”، “ادب اور عاجزی سے درجاتِ عالیہ نصیب ہوتے ہیں”، عمل پیہم اور جہد مسلسل کا خُو گر کبھی ناقص نہیں رہتا”، “بے لوث محبت مُحب کو محبوب سے واصل کرتی ہے” ، ” دولت عشق کسی بوالہوس کا نصیب نہیں” اور اقامت صلوٰاة دوسرے اعمال کی دُرستگی کا ذریعہ ہے۔” شامل ہیں۔
سفرِ آخرت
ہرسال روضہ رسول ﷺ پر اور ہرماہ بابا فرالدین گنج شکرؒ کے مزار پر حاضری معمول تھا۔ آخری بار مدینہ طیبہ روانگی سے پہلے بتاکر گئے کہ میں عمرے کے لیئے نہیں بلکہ کلمہ طیبہ صاحب کلمہ ﷺ کے پاس امانت رکھوانے جارہا ہوں۔ بالآخر آپؒ 26/25ستمبر 2025ء یعنی 4ربیع الثانی 1447 ہجری جمعرات اور جمعة المبارک کی شب رات ساڑھے بارہ بجے کے قریب اپنے اہل و عیال، عزیز وقرباء ،ہزاروں مُریدین اور چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر 87 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ آپؒ کا جنازہ لختِ جگر ضیاء الامت پیر کرم شاہ بھیرویؒ ڈاکٹر ابوالحسن زید مجدہ پرنسپل مرکزی دارالعلوم بھیرہ شریف نے پڑھائی۔ اپنے ہی کمرے کے ساتھ ملحقہ صحن میں مزار میں آپؒ کو دفن کیا گیا۔
آپؒ کے پردوہ کرلینے سے دُنیا ایک محقق عالم، عابد، ذاکر ، صوفی اور سچے عاشق رسولﷺ سے محروم ہوگئی۔ آپؒ نے پردہ کیا کیا کہ گویا تصوّف کےاُفق پر چمکتا ایک روشن ستارہ غروب ہوگیا۔ آپؒ کی نمازِ جنازہ میں پاکستان کے طول عرض سے بلا مسالکی تفریق کثیر تعداد میں علماء اور مشائخ نے شرکت کی۔ قمرالعلوم کے سامنے قمر سیالوی روڈ پر جب آپؒ کا جسم اقدس نماز جنازہ کے لیئے لایا گیا تو جنازے میں شریک ہر شخص اشکبار تھا۔ مجمع تھا کہ سنبھالے سنبھلتا نہیں تھا۔ نماز سے قبل صفیں درست کرنے میں ہی ڈھیر سارا وقت گُذر گیا۔ تدفین کے بعد برصغیر پاک ہند کے بڑے بڑے مزارات میں آپؒ کے درجات کی بُلندی کے لیئے دعائیں کی گئیں۔
آپؒ کے وصال کے بعد کسی چاہنے والے نے یہ صدا لگائی “جس دن سے جُدا وہ ہم سے ہوئے ۔۔۔اس دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا۔۔۔ ہے چاند کا منہہ اُترا اُترا ۔۔۔ تاروں نے چمکنا چھوڑ دیا۔