حیدرآباد 15 اکتوبر (عمران مشتاق) بسنت ہال کلچرل سینٹر حیدرآباد میں دی انٹرنیشنل ڈے آف رورل ویمن کے عنوان سے ایک تقریب منعقد کی گئی، جس میں دیہی خواتین کے کردار، جدوجہد اور خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔تقریب میں کمشنر حیدرآباد فیاض حسین عباسی، مہتاب اکبر راشدی، نورالہدیٰ شاہ، کرشنا کماری، ڈاکٹر رضوانہ انصاری، ایران کے ثقافتی اتاشی رضا پارسا، شمش الحق میمن، امر سندھو، حسینہ مسرت سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔کمشنر حیدرآباد فیاض حسین عباسی نے بسنت ہال کی جانب سے دیہی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اس منفرد خیال کو اجاگر کرنے پر آرگنائزر ثوبیہ علی کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے مختلف علاقوں میں خدمات انجام دی ہیں مگر اس نوعیت کے موضوع پر کبھی کوئی سیمینار نہیں دیکھا۔انہوں نے کہا کہ دیہی خواتین مردوں کے جبر کے باوجود حوصلہ اور استقامت کی مثال ہیں۔ خواتین کو تعلیم اور ہنر کے ذریعے بااختیار بنانا وقت کی ضرورت ہے تاکہ وہ معاشرتی ناانصافیوں کے خلاف کھڑی ہوسکیں۔سابق سینیٹر اور انسانی حقوق کی علمبردار کرشنا کماری نے اپنی دیہی پس منظر سے پارلیمنٹ تک کے سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر دیہی خواتین کا کردار رُک جائے تو معیشت کا پہیہ بھی رک جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ان خواتین کی محنت ہی سے ہماری زندگیاں چلتی ہیں۔مہتاب اکبر راشدی نے اپنی تقریر میں دیہی خواتین کو درپیش منظم معاشرتی مسائل پر روشنی ڈالی اور تعلیم کو ان کے بااختیار ہونے کا بنیادی ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ خواتین شہری طبقے کے رویوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی محنت اور ہنر سے معاشرے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔مہتاب راشدی نے انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ (EFT) کی کاوشوں کو سراہا جنہوں نے دیہی خواتین کو اپنی دستکاریوں اور ہنرمندی کو پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ انہوں نے تھر کی ہنرمند خواتین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ہاتھوں سے بنی ہوئی چیزیں ہماری ثقافتی پہچان ہیں جنہیں فروغ دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ دیہی خواتین کے ہاتھ محنت سے گھِس جاتے ہیں، کپاس کی فصل چننا آسان کام نہیں مگر وہ یہ مشقت خوشی سے کرتی ہیں۔ انہوں نے مردوں اور جاگیرداروں کے استحصالی رویے کی بھی نشاندہی کی اور کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان خواتین کی بے مثال خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں برابری کا درجہ دیا جائے۔اپنی تقریر کے اختتام پر مہتاب راشدی نے کہا کہ دیہی خواتین فطری طور پر فن و ہنر سے مالا مال ہیں، اس لیے ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم ان کے فن کو سراہیں اس کی ترویج کریں اور ان کے کام کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر متعارف کرائیں۔اس موقع پر نورالہدیٰ شاہ نے کہا کہ میڈیا اور ادب میں دیہی عورت کی اصل تصویر دکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ خواتین مٹی سے جڑی ہوئی ہیں، ان کی روح زمین سے الگ نہیں کی جاسکتی۔ڈاکٹر رضوانہ انصاری نے دیہی خواتین کو درپیش طبی مشکلات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دیہی علاقوں میں زچگی اور ذہنی صحت کے مسائل فوری توجہ کے طالب ہیں۔ انہوں نے پاکستانی ماؤں کی شرح اموات کا موازنہ ملائشیا سے کرتے ہوئے بہتری کی ضرورت پر زور دیا۔تقریب کے اختتام پر معروف شاعرہ فاطمہ حسن نے دیہی خواتین کی محنت و قربانیوں پر مبنی نظم پیش کی، جب کہ بسنت ہال کی ڈائریکٹر ثوبیہ علی نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ ثقافتی ہم آہنگی اور صنفی برابری کے فروغ کے لیے سرگرم رہے گا۔پروگرام کا اختتام شاہ لطیف کی وائی سے کیا گیا۔