(رپورٹ ای این آئی)ایک اسرائیلی قیدی نے غزہ میں سب کچھ بدل دیا۔
گزشتہ روز اسرائیلی قیدی الیگزینڈر تُربانوف، جو رہا ہوا، نے مقبوضہ اسرائیل سے ایک حیران کن بیان دیا:
> “تمہاری مہربانی ہمیشہ میری روح پر نقش رہے گی…
میں نے 498 دن تمہارے درمیان گزارے۔
ظلم و جارحیت کے باوجود جو تم نے برداشت کی،
میں نے تم سے اصل مردانگی، خالص بہادری، انسانیت اور اقدار کا احترام سیکھا۔
تم قیدی ہو کر بھی آزاد تھے،
اور میں آزاد ہو کر بھی قیدی تھا۔
تم نے میری زندگی کی حفاظت کی…
جیسے ایک باپ اپنے بیٹوں کے ساتھ محبت سے پیش آتا ہے،
تم نے میری عزت، صحت اور وقار کا خیال رکھا۔
> حالانکہ میں ان لوگوں کے ہاتھوں میں تھا جو اپنی زمین اور چھینی گئی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں،
اور میری حکومت ایک محصور قوم پر بدترین نسل کشی کر رہی تھی،
مگر تم نے مجھے نہ بھوکا رکھا، نہ ذلیل کیا۔
> میں نے مردانگی کا اصل مفہوم تمہاری آنکھوں میں دیکھا۔
قربانی کی قدر میں نے تمہارے درمیان رہ کر سمجھی۔
میں نے تمہیں موت کے منہ میں بھی مسکراتے دیکھا،
ایسے دشمن کے مقابل جو تباہی کے ہتھیاروں سے لیس تھا،
اور تمہارے پاس کچھ نہیں تھا سوائے اپنے جسموں کے۔
> میں چاہوں بھی تو الفاظ نہیں ملتے
جو تمہاری اصل قدر و منزلت بیان کر سکیں،
یا تمہارے اعلیٰ اخلاق پر میرے حیرت و عقیدت کا اظہار کر سکیں۔
> کیا تمہارا دین واقعی تمہیں سکھاتا ہے کہ قیدیوں سے اس طرح کا سلوک کرو؟
کتنا عظیم ہے وہ ایمان
جو تمہیں اس مقام پر پہنچاتا ہے
جہاں انسان کے بنائے تمام انسانی حقوق کے قوانین بکھر جاتے ہیں،
جنگ کے سارے پروٹوکول تمہارے سامنے ماند پڑ جاتے ہیں۔
> حتیٰ کہ سخت ترین لمحات میں بھی تمہارے اندر عدل و رحمت نمایاں رہتی ہے—
محض نعرے کی صورت میں نہیں،
بلکہ تمہارے عملی رویّے میں۔
تم نے اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا،
چاہے حالات کتنے ہی تاریک کیوں نہ تھے۔
> یقین مانو، اگر میں کبھی واپس آیا،
تو تمہارے درمیان ایک محنتی شاگرد بن کر رہوں گا،
کیونکہ میں نے تمہاری قوم سے سچائی سیکھی ہے۔
میں نے جان لیا کہ تم صرف زمین کے مالک نہیں،
بلکہ تم اصولوں اور انصاف کے مالک ہو۔”