رپورٹ ای این آئی ڈزاسٹر یہ نہیں کہ لیاری اور ملیر ندیاں بھپر گئیں. اصل ڈزاسٹر تو دہائیوں سے ان ندیوں اور ان سے منسلک نالوں کے اندر ہونے والے قبضے تھے. ان ندیوں کو خالی راستہ سمجھ کر وہاں پر آبادیاں بسائی گئیں. یہ ندیاں کھیرتھر پہاڑ سے بارشوں کا تازہ پانی لا کر سمندر تک پہنچاتی تھیں. یہ پہاڑی ریلوں کے قدرتی بہاؤ کی گذرگاہیں ہیں. ان کے راستے میں سڑکیں، سوسائٹیز اور ہر طرح کی تجاوزات کی گئیں. ملیر ندی سے ریتی بجری کے لاکھوں ٹرک نکال کر کراچی کو سیمنٹ کنکریٹ کا گھنا جنگل بنایا گیا. جس سے اب اس ندی کا پانی اس کے اندر ٹھر کر گذرنے کے بجائے تیز ریلے کی شکل میں گذرتا ہے. یوں ملیر ندی کا ایکو سسٹم تباہ ہونے سے اس پر ہونے والے ملیر کے باغات اور کھیت سوکھ گئے اور ان زمینوں پر نئی سوسائٹیز تعمیر ہو گئیں. اب ان ندیوں سے جب پانی اپنا راستہ لیتا ہو تو اس کے تنگ کئے گئے راستوں سے وہ بھپر کر ہی گذرے گا. یہ سارے ٹی وی چینلز ان ندیوں پر ہونے والے قبضوں کے وقت خاموش رہتے ہیں بلکہ وہاں تجاوزات کے خلاف کوئی آپریشن ہو تو قابضین کو مظلومین قرار دے کر ان کی آواز بننے کے لیئے کیمرے اور مائیک لے کر لائیو نشریات چلاتے ہیں. یہ میڈیا ادارے ان آبادیوں کے پیچھے بااثر قبضہ گیروں کہ تنخواہ پر ان کے وکیل بنے رہتے ہیں اور ان کی جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے بڑے بڑے اشتہار چھاپتے/چلاتے ہیں. پھر جب ان ندیوں کا پانی اپنے راستے کی تلاش میں یہ قبضے چھڑاتا ہے تو میڈیا کو بھپرے ہوئے نالوں کا نغمہ یاد آ جاتا ہے. ساتھ کچھ بارش بھی آ جائے تو پھر – میں ڈوب رہا ہوں، ڈوبا تو نہیں ہوں – کے ماتمی نغمے شروع ہو جاتے ہیں. دہائیوں سے ہر حکومت، پارٹی اور ادارے ان قبضوں کے ذمہ دار ہیں. پانی کے راستے خالی نہ ہونے تک یہ ندیاں اور نالے بھپرتے رہیں گے. آپ کے کیمرے اور ماتمی نغمے انہیں روک نہیں پائیں گے.
نصير ميمن