(رپورٹ ای این آئی)سندھ میں سچ بولنا اب جرم بن چکا ہے پانچ سالوں میں سات صحافی بیدردی سے قتل کر دیے گئے، مگر انصاف آج بھی اندھا اور بہرا ہے۔ سچ بولنے والوں کے قلم توڑ دیے گئے، لیکن ان کی صدائیں آج بھی سندھ کی فضاؤں میں گونج رہی ہیں
فروری 2020 میں KTN نیوز کے عزیز میمن کو مارا گیا، مئی 2020 میں روزنامہ کوشش کے رپورٹر ذوالفقار موندھراڻي کو دوداپور میں قتل کیا گیا، مارچ 2021 میں صالح پٹ کے اجے لالوانی کو بے دردی سے گولیاں مار دی گئیں، جون 2023 میں خیرپور کے اصغر کھنڈ کو نشانہ بنایا گیا، اگست 2023 میں سکھر میں KTN کے رپورٹر جان محمد مہر کو سرعام گولیوں سے بھون دیا گیا، مئی 2024 میں نصراللہ گڈانی کو شہید کیا گیا، ستمبر 2025 میں کراچی میں امتیاز میر کو نشانہ بنا کر مار دیا گیا،
اور آج… میرپور ماتھیلو میں معصوم بچوں کے سامنے طفیل رند کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ کب تک سندھ کی دھرتی پر سچ بولنے والوں کا خون بہتا رہے گا کب تک قاتل ذاتی دشمنی” کے بہانے آزاد گھومتے رہیں گے؟ کب تک حکومت اور ادارے اندھے بنے رہیں گے سندھ حکومت، سندھ پولیس اور دیگر ادارے صحافیوں کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ اب صحافی اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ اٹھائیں؟ کیا اب قلم کے سپاہی خود اپنی جان کے محافظ بنیں طفیل رند، نصراللہ گڈانی، جان محمد مہر، عزیز میمن…، یہ سچ، حوصلے اور ضمیر کی علامتیں ہیں۔ سچ کو گولیوں سے نہیں مارا جا سکتا جب تک ایک قلم زندہ ہے، سچ لکھنے والے کبھی نہیں مریں گے۔