(رپوٹ فرمان قراشئ)سندھ سمیت ملک میں کپاس کی کاشت میں تیزی سے کمی، پیداوار میں 50 فیصد تک کمی ریکارڈ — “کاٹن میلہ 2025” میں ماہرین کی تشویش
ٹنڈوجام پاکستان کے ممتاز زرعی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ سندھ سمیت ملک کے کئی علاقوں سے کپاس کی کاشت تیزی سے ختم ہو رہی ہے، جب کہ موسمی تبدیلیوں، پانی کی قلت، اور غیر پائیدار کاشتکاری کے باعث گزشتہ پندرہ برسوں میں کپاس کی پیداوار میں 50 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ موسمی برداشت رکھنے والی اجناس پر مشترکہ تحقیق اور مربوط پالیسی کے تحت اقدامات کیے جائیں، تاکہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی کپاس کی فصل کو بچایا جا سکے۔یہ بات سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے بزنس انکیوبیشن سینٹر میں سینٹر آف ایگریکلچر اینڈ بائیو سائنسز انٹرنیشنل (CABI) کے زیر اہتمام کپاس کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ “کاٹن میلہ 2025” سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین نے کہی۔وائس چانسلر سندھ زرعی یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں کپاس کی پیداوار مسلسل کمی کا شکار ہے، جس کی بڑی وجوہات میں موسمی تبدیلیاں، پانی کی کمی، کمیشن ایجنٹوں کی اجارہ داری، غیر منصفانہ قیمتیں، پیداوار کے بڑھتے ہوئے اخراجات، اور ایکسپورٹ کوالٹی کی خرابی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملتان، گھوٹکی اور سانگھڑ جیسے کاٹن بیلٹ علاقے اب گنے اور دھان کی فصلوں میں تبدیل ہو چکے ہیں، جو تشویش ناک رجحان ہے۔ڈاکٹر سیال نے زور دیا کہ کپاس کے تحفظ اور بحالی کے لیے موسمی برداشت رکھنے والی اقسام کی ترقی، جدید تحقیق، اور ادارہ جاتی تعاون ناگزیر ہو چکا ہے۔سی اے بی آئی کے پروجیکٹ منیجر ڈاکٹر ہیبت اللہ اسد نے کہا کہ گزشتہ پندرہ برسوں میں کپاس کی مجموعی پیداوار میں نصف سے زائد کمی آئی ہے، جو پاکستان کی زرعی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کپاس کی کاشت میں زہریلی کیمیکلز اور پیسٹی سائیڈز کا 65 فیصد استعمال ہو رہا ہے، جو ماحولیاتی آلودگی اور صحت کے مسائل کو بڑھا رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سی اے بی آئی 30 ہزار سے زائد کسانوں کو قدرتی پیسٹ مینیجمینٹ کے جدید اور محفوظ طریقوں کی تربیت دے رہا ہے تاکہ کیمیکل کے استعمال میں کمی اور فصل کی پائیداری کو یقینی بنایا جا سکے۔خوراک و زراعت کے عالمی ادارے (FAO) سندھ کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر اشفاق احمد ناہیوں نے کہا کہ کپاس کی بحالی کے لیے بیج سے لے کر مارکیٹ اور ایکسپورٹ تک کی کپاس سپلائی چین کو ازسرِنو ترتیب دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس پورے نظام میں کسان کو مرکزی اسٹیک ہولڈر کے طور پر شامل کرنا لازمی ہے، کیونکہ پالیسی سازی اور منڈی تک رسائی میں اس کا کلیدی کردار ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایف اے او سندھ بھر میں کسانوں کی تربیت، دیہی خواتین کے معاشی کردار کے فروغ، اور فوڈ سیکیورٹی کے لیے مختلف منصوبوں پر عملدرآمد کر رہا ہے۔پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل کے نمائندے جمع خان باجکانی نے کہا کہ سال 2024-25 میں پاکستان نے کپاس کی کم ترین پیداوار رپورٹ کی، جس میں سندھ کے سانگھڑ، گھوٹکی اور دیگر اضلاع بدترین متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں کسانوں کی تکنیکی معاونت اور جدید تحقیق کے نفاذ کی فوری ضرورت ہے۔اس موقع پر کپاس پر مبنی زرعی و ثقافتی نمائش کا بھی انعقاد کیا گیا، جس میں سندھ زرعی یونیورسٹی، سی اے بی آئی، وفاقی و صوبائی اداروں، اور نجی کمپنیوں کی جانب سے اسٹالز لگائے گئے۔اختتام پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے شریک ماہرین، ادارہ جاتی نمائندگان اور مہمانوں میں شیلڈز اور اعزازی تحائف تقسیم کیے۔اس تقریب میں فیکلٹی آف کراپ پروٹیکشن کے ڈین اور سی اے بی آئی کے فوکل پرسن ڈاکٹر عبدالمبین لودھی، پروفیسر ڈاکٹر اعجاز احمد سومرو، ویمن چیمبر آف کامرس کی چیئرپرسن شاہدہ ٹالپر، گل احمد گروپ کے کامران شعیب، ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی ریشمہ تھیبو، سی سی آر سکرنڈ کے عبداللہ کیریو، زوہیب خانزادہ، رفیق احمد جمالی، آر ڈی ایف کے طالب عباسی، اساتذہ، زرعی ماہرین، کسانوں اور طلبہ کی بڑی تعداد موجود تھی۔