(خصوصی رپورٹ ای این آئی)
افغان حکومت کی پاکستان میں مداخلت اور دیگر اہم واقعات
30 ستمبر 1947ء کو افغانستان دنیا کا واحد ملک بنا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔
ستمبر 1947ء میں ہی افغان حکومت نے کابل میں افغان جھنڈے کے ساتھ پشتونستان کا جعلی جھنڈا لگا کر آزاد پشتونستان تحریک کی بنیاد رکھی۔
47ء میں ہی افغان ایلچی نجیب اللہ نے نوزائیدہ مسلمان ریاست پاکستان کو فاٹا سے دستبردار ہونے اور سمندر تک راہداری دینے کا مطالبہ کیا جس پر افغان حکومت کا کنٹرول ہو بصورت دیگر جنگ کی دھمکی دی۔قائد اعظم نے اس احمقانہ مطالبے کا جواب تک دینا پسند نہ کیا۔
1948ء میں افغانستان نے قبائل کے نام سے ایک نئی وزارت کھولی جس کا کام صرف پاکستان کے قبائلیوں کو پاکستان کے خلاف اکسانا تھا۔
48ء میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف پرنس عبدالکریم بلوچ کے دہشتگردی کے ٹریننگ کمیپ بنے۔
1949ء میں روس کی بنائی ہوئی افغان فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسے پمفلٹ گرائے جن میں قبائلی عوام کو پشتونستان کی تحریک کی حمایت کرنے پر ابھارنے کی کوشش کی گئی تھی۔
12 اگست 1949ء کو فقیر ایپی نے باچا خان کے زیراثر افغانستان کی پشتونستان تحریک کی حمایت کا اعلان کیا۔
31 اگست 1949ء کو کابل میں افغان حکومت کے زیر اہتمام ایک جرگہ منعقد کیا گیا جس میں باچا خان اور مرزا علی خان عرف فقیر ایپی دونوں نے شرکت کی۔ اس جرگے میں ہر سال 31 اگست کو یوم پشتونستان منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی جرگہ میں پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
افغانستان کی پشت پناہی میں فقیر ایپی نے 1949ء میں پاکستان کے خلاف پہلی گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ اس کے جنگجو گروپ کا نام غالباً سرشتہ گروپ تھا۔ اس کی دہشت گردانہ کارروائیاں وزیرستان سے شروع ہو کر کوہاٹ تک پھیل گئیں۔ فقیر ایپی نے چن چن کر ان پشتون عمائدین کو قتل کیا جنھوں نے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں رائے عامہ ہموار کی تھی۔
49ء میں افغانستان نے اپنی پوری فورس اور لوکل ملیشیا کے ساتھ چمن کی طرف سے پاکستان پر بھرپور حملہ کیا۔ جس کو نوزائیدہ پاک فوج نے نہ صرف پسپا کیا بلکہ افغانستان کے کئی علاقے چھین لیے۔ جو افغان حکومت کی درخواست پر واپس کر دیے گئے۔
1954ء میں ایپی فقیر کے گروپ کمانڈر مہر علی نے ڈپٹی کمشنر بنوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے پاکستان سے وفاداری کا اعلان کیا جس کے بعد اس تحریک کا خاتمہ ہوا۔
50ء میں افغانستان نے انڈیا کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا جس کا ایک نقاطی ایجنڈہ تھا کہ پاکستان کو کسی بھی طرح گھیر کر ختم کرنا ہے۔
ستمبر 1950 میں افغان فوج نے بغیر وارننگ کے بلوچستان میں دوبندی علاقے میں بوگرہ پاس پر حملہ کر دیا۔ جس کا مقصد چمن تا تاکوئٹہ ریلوے لنک کو منقطع کرنا تھا۔ ایک ہفتے تک پاکستانی و افغانی افواج میں جھڑپوں کے بعد افغان فوج بھاری نقصان اٹھاتے ہوئے پسپا ہو گئی۔ اس واقعہ پر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے افغان حکومت سے شدید احتجاج کیا۔
16 اکتوبر 1951 کو ایک افغان قوم پرست دہشت گرد سعد اکبر ببرج مردود نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں شہید کیا۔ لیاقت علی خان کی شہادت پاکستان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا پہلا واقعہ تھا یعنی پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز افغانستان نے کیا۔
6 جنوری 1952 کو برطانیہ کے لیے افغانستان کے ایمبیسڈر شاہ ولی خان” نے بھارت کے اخبار دی ہندو کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ ہرزہ سرائی کی کہ پشتونستان میں ہم چترال، دیر، سوات، باجوڑ، تیراہ، وزیرستان اور بلوچستان کے علاقے شامل کرینگے
26 نومبر 1953 کو افغانستان کے کے نئے سفیر غلام یحیی خان طرزی” نے ماسکو روس کا دورہ کیا جس میں روس (سوویت اتحاد) سے پاکستان کے خلاف مدد طلب کی۔ جواباً انھوں نے افغانستان کو مکمل مدد کی یقین دہانی کروائی۔
28 مارچ 1955 میں افغانستان کے صدر داؤد خان نے روس کی شہہ پا کر پاکستان کے خلاف انتہائی زہر آمیز تقریر کی جس کے بعد 29 مارچ کو کابل، جلال آباد اور کندھار میں افغان شہریوں نے پاکستان کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا آغاز کر دیا جس میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی گئی اور پاکستانی پرچم کو اتار کر بےحرمتی کی گئی۔ جس کے بعد پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیے اور سفارتی عملے کو واپس بلا لیا۔
55ء میں سردار داؤود وغیرہ نے *پاکستان کے بارڈر پر بہت بڑے بڑے کھمبے لگائے جن پر اسپیکر لگا کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا۔یہ غالباً افغانستان کی پاکستان کے خلاف پشتونوں کو بھڑکانے کے لیے پہلی ڈس انفارمیشن وار تھی جس میں ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا۔ اسکی جدید ترین شکل ڈیوہ اور مشال ریڈیو ہیں جنھوں نے اس وقت نئی جماعت پی ٹی ایم کو جنم دیا۔
مئی 1955ء میں افغان حکومت نے افغان فوج کو متحرک ہونے کا حکم دیا۔ جس پر جنرل ایوب خان نے کہا اگرافغانستان نے کسی قسم کی جارحیت کا ارتکاب کیا تو اسے وہ سبق سکھایا جائے گا جو وہ کھبی نہ بھول سکے”۔ جس کے بعد وہ رک گئے۔
نومبر1955ء میں چند ہزار افغان مسلح قبائلی جنگجووں نے گروپس کی صورت میں 160 کلومیٹر کی سرحدی پٹی کے علاقے میں بلوچستان پر حملہ کر دیا پاک فوج سے ان مسلح افغانوں کی چھڑپیں کئی دن تک جاری رہیں۔
مارچ 1960ء میں افغان فوج نے اپنی سرحدی پوزیشنز سے باجوڑ ایجنسی پر مشین گنوں اور مارٹرز سے گولی باری شروع کر دی۔ جس کے بعد پاکستانی ائیر فورس کے 26 طیاروں نے افغان فوج کی پوزیشنز پر بمباری کی۔
28 ستمبر 1960 کو افغان فوج نے چند ٹینکوں اور انفینٹری کی مدد سے باجوڑ ایجنسی پر حملہ کر دیا۔
پاکستان آرمی نے ایک مرتبہ پھر افغان فوج کو بھاری نقصان پہنچاتے ہوئے واپس دھکیل دیا۔
1960ء کے دوران پاکستانی فضائیہ کی افغان فوج پر بمباری وقفے وقفے سے جاری رہی۔
1960ء میں ہی افغانستان میں پاکستان کے خلاف شیر محمد مری کے دہشتگردی کے ٹریننگ کیمپس بنے۔
مئی 1961ء میں افغانستان نے باجوڑ، جندول اور خیبر پر ایک اور محدود پیمانے کا حملہ کیا۔
اس مرتبہ اس حملے کا مقابلہ فرنٹیر کور نے کیا اور اس دفعہ بھی پاکستانی فضائیہ کی بمباری نے حملے کا منہ موڑ دیا۔افغان حکومت نے حملے کی حقیقت سے انکار کر دیا۔
جولائی 1963ء میں ایران کے بادشاہ رضاشاہ پہلوی کی کوششوں سے پاکستان و افغانستان نے اپنی سرحدیں کھول کر تعلقات بحال کر لیے۔اسکے بعد 2سال تک امن رہا۔
1965ء میں انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا تو افغانستان نے موقع غنیمت جان کر دوبارہ مہند ایجنسی پر حملہ کر دیا۔لوگ حیران رہ گئے کہ انڈیا نے افغانستان کی طرف سے کیسے حملہ کر دیا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ افغانیوں نے کیا ہے۔ اس حملے کو مقامی پشتونوں نے پسپا کر دیا۔
1970ء میں افغانستان نے اے این پی والوں کے” ناراض پشتونوں” اور بلوچوں کے ٹریننگ کیمپس بنائے۔ عدم تشدد کے نام نہاد علمبردار اجمل خٹک اور افراسیاب خٹک ان کیمپس کا حصہ تھے۔
1971ء میں جب کے جی بی انڈیا کے ساتھ ملکر پاکستان کو دولخت کر رہی تھی تو اس کے ایجنٹ افغانستان میں بیٹھا کرتے تھے۔اس وقت افغانی اعلانیہ کہا کرتے تھے کہ 2 ہونے کے بعد اب پاکستان کے4 ٹکڑے ہونگے۔
1972ء میں اے این پی کے اجمل خٹک نے افغانستان کی ایماء پر دوبارہ پشتونستان تحریک کو منظم کرنے پر کام شروع کر دیا۔تاہم اس وقت تک افغانستان کو اندازہ ہو چکا تھا کہ پشتونستان تحریک بری طرح سے ناکام ہو چکی ہے اس لیے اس نے اب بھارت کے ساتھ ملکر آزاد بلوچستان تحریک کو بھڑکانا اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی عسکری تربیت شروع کردی۔ تاہم پشتونستان کے نام پر بھی افغان تخریب کاریاں جاری رہی۔
افغانستان کی طرف سے مسلسل سازشوں اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کے بعد بالآخرپاکستان کے وزیر اعظم ذو الفقار بھٹو نے پہلی مرتبہ جواباً افغانستان کے خلاف منظم خفیہ سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
1973ء میں پشاور میں افغان نواز عناصر نے پشتونستان تحریک کے لیے پشتون زلمی” کے نام سے نئی تنظیم سازی کی۔
1974ء میں افغانستان نے لوئے پشتونستان کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔
فروری 1975ء میں افغان نواز تنظیم پشتون زلمی نے خیبرپختونخواہ کے گورنر حیات خان شیرپاو کو بم دھماکے میں شہید کر دیا۔(بحوالہ کتاب فریب ناتمام از جمعہ خان صوفی)
28 اپریل 1978ء میں روسی پروردہ کمیونسٹ جماعت “پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان” نے روسی اسلحے اور چند روسی طیاروں کی مدد سے کابل میں بغاوت برپا کردی جسے انقلاب ثور کا نام دیا گیا۔اس کے نتیجے میں صدر داؤد سمیت ہزاروں افغانوں کو بیدردی سے ہلاک کر دیا گیا اور افغانستان پر کمیونسٹ حکومت قائم کردی گئی۔ کمیونسٹ صدر نجیب نے اقتدار سنبھالتے ہی لوئے پشتونستان” کی عام حمایت کا اعلان کر دیا۔
1979ء میں افغان عوام کمیونسٹ حکومت کے خلاف پوری طاقت سے کھڑے ہو گئے اور کمیونسٹ نجیب ہزاروں افغانوں کا قتل عام کرنے کے باوجود عوامی انقلاب کو روک نہ سکا۔ اپنی حکومت کو خطرے میں دیکھ کر نجیب نے روس کو افغانستان پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی۔
24 دسمبر 1979ء کو روس نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔
روسی پورے افغانستان کو روندتے ہوئے تورخم بارڈر تک پہنچ گئے اور اعلان کیا کہ وہ دریائے سندھ کو اپنا بارڈر بنائینگے۔یعنی بلوچستان اور کے پی کو لے لینگے۔
روسی و افغان کمیونسٹ افواج نے افغانستان میں قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔پاکستان نے اس موقع پر 30 لاکھ سے زیادہ افغانوں کو پناہ اور تحفظ دیا اور روس کے خلاف برسرپیکار افغان مجاہدین کی مکمل مدد کی۔
1980ء میں افغانستان میں پیپلز پارٹی کی الذولفقار نامی دہشت گرد تنظیم کے ٹریننگ کیمپس بنے۔ اسی تنظیم نے مبینہ طور پر پاکستانی طیارے کو ھائی جیک کر کے ایک پاکستانی کیپٹن کو شہید کر دیا۔ پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق کو پاک فوج کے 17 جرنیلوں سمیت شہید کرنے میں بھی کچھ عالمی طاقتوں کے ساتھ اس تنظیم کا ھاتھ شامل تھا
79ء سے 89ء تک روسی فضائیہ نے کئی مرتبہ پاکستانی سرحدی علاقوں پر بمباری کی۔ کے جی بی اور افغان ایجنسی خاد نے اے این پی کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیاں کیں جن کے نتیجے میں سینکڑوں پاکستانی زیادہ تر پشتون شہید ہوئے۔
2006ء سے اب تک افغانستان کی نئی ایجنسی *این ڈی ایس بھارتی ایجنسی را کے ساتھ ملکر پاکستان میں ٹی ٹی پی سمیت کوئی پچاس کے قریب مختلف دہشت گرد تنظیموں کو سپورٹ کر رہی ہے۔ ان تمام تنظیموں کی مشترکہ کاروائیوں میں اب تک 60،000 پاکستانی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں بڑی تعداد پشتون، تین لاکھ سے زائد زخمی ہوئے اور ہزاروں اب بھی آئی ڈی پیز کی شکل میں بے گھر ہیں۔ پاکستان کو کم از کم 100 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
انڈیا نواز حامد کرزئی کے دور حکومت میں ایک دفعہ پھر لوئے جرگہ کا انعقاد کیا گیا جس میں ناراض پختونوں کو خاص طور پر مدعو کیا گیا۔ اور اس کو عالمی کوریج دلوائی گئی۔
حامد کرزئی کے دور حکومت میں ھی پاکستانی سرحد کے ساتھ انڈیا کے تین سو سے زیادہ قونصلیٹ تعمیر کئے گئے۔ جن میں سے کچھ اس جگہ بھی تھے جہاں ابادی کا نام و نشان نہیں تھا۔
اسی عرصے میں امریکا نے افغانستان میں فاٹا اور بلوچستان کی *سرحدوں پر ڈیوہ اور مشال کے نام سے اپنی خصوصی ریڈیو سروس کا آغاز کیا جن کا تقریباً سارا عملہ افغانیوں پر مشتمل ہے یا لوئے پشتونستان کے علمبرداروں پر۔
ان ریڈیو چینلز نے ان دونوں علاقوں میں پشتونوں کو پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا۔
افغانستان سے پاکستان میں جو دہشت گردانہ حملے کیے ان میں سب سے بڑا حملہ 16 دسمبر 2014 کو APS پر کیا گیا جس میں بھارتی RAW اور افغان NDS کے پلان پر7 افغان دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا جس میں 150 بچوں اور اساتذہ کو بیدردی سے شہید کر دیا
جون 2016ء میں افغان نیشنل آرمی نے طورخم بارڈر پر گیٹ لگانے والی پاک فوج پر حملہ کر دیا اور پاک فوج کے میجر علی جواد چنگیزی کو شہید کر دیا۔ پاک فوج کے جوابی حملے میں افغان فورسز اپنی چیک پوسٹیں اور قلعہ تک چھوڑ کر فرار ہوگئیں۔بعد میں زخمی فوجیوں کا علاج کرنے پاکستان سے درخواست کی جو پاکستان نے قبول کر لی۔
5 مئی 2017ء کو بھارت کی شہہ پر افغان نیشنل آرمی نے چمن پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کر دیا جس میں 2 پاکستانی فوجی اور 9 پاکستانی سویلین ( پشتون) شہید جبکہ 40 کے قریب زخمی ہوئے۔جواباً پاک فوج کے حملے میں 50 افغان فوجی ہلاک اور 5 ملٹری پوسٹس تباہ ہوئیں۔اس کے علاوہ ہر چند دن کے وقفے کے بعد دہشت گرد افغان سرزمین سے پاکستانی سرحدی پوسٹوں پر مسلسل حملے کر رہے ہیں۔
فاٹا، بلوچستان اور کے پی کے میں آپریٹ کرنے والی تمام دہشت گرد تنظمیوں کے مراکز افغانستان میں ہیں اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔
دوسری جانب ڈیوہ اور مشال کی مسلسل محنت رنگ لے آئی۔ اور عین اس وقت جب افغانستان کی بہت بڑی پراکسی کو شکست دینے کے بعد فاٹا میں دوبارہ آباد کاری اور تعمیر نو کا عمل جاری تھا 2018ء میں ایک بار پھر وزیرستان سے پشتونوں کی نئی تحریک لانچ کی گئی پی ٹی ایم کے نام سے۔ افغان صدر اور افغان پارلیمنٹ نے ان کی علانیہ حمایت کی۔افغانیوں نے افغانستان سمیت دنیا بھر میں اس تحریک کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ یوں اس کو پشتونوں کی عالمی تحریک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔اسی تحریک میں پاکستان مردہ باد اسرائیلی آرمی زندہ باد دہشت گردی کے پیچھے وری لرو بر یو پشتون ( لوئے پشتونستان ) اور پاکستان سے آزادی کے نعرے لگانے شروع کر دیے گئے۔
افغان شعرا نے اس کے حق میں شاعری کی، غزلیں لکھیں، افغان مصوروں نے تحریک کے لیے مفت میں آرٹ تخلیق کرنا شروع کیا۔ جس کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔ پونی والی تاجک ٹوپی جو اس سے پہلے پاکستانی پشتون علاقوں میں نہ کبھی کسی نے دیکھی نہ پہنی کو تحریک کی علامت بنا کر مفت تقسیم کیا گیا۔
وہ افغانی جو پاکستان میں رہتے ہیں یا جنھوں نے پاکستانی یونیورسٹیوں میں پڑھ کر اردو سیکھ لی ہے نے جعلی اکاؤنٹس بنا کر بہت بڑے پیمانے پر اس نئی تحریک کو سپورٹ کرتے ہوئے پاکستان مخالف پراپیگینڈا شروع کر دیا۔
اب PTM مخالفین یا پاکستان حامیوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ ملک ماتوڑکے، ملک عباس اور SP طاہر داؤڑ اس کی چند مثالیں ہیں۔SP طاہر داؤڑ کو NDS کا اہلکار ورغلا کر افغانستان لے گیا اور پھر افغان حکومت نے اسکو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ لاش PTM کے حوالے کی گئی۔
مئ 2025 جب پاک فوج نے انڈین طیارے گرائے تو تمام افغان سوشل میڈیا نے انڈیا کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور جنگ کی صورت میں انڈیا کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
افغانستان میں ہی NDS اور ملا طور کے زیر قیادت ایک خفیہ میٹنگ کا انکشاف ہوا جس میں TTP نے انڈین جہاز گرانے پر پاکستان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔
پکتیکا میں وزیرستان کے آٹھ لوگوں کو محض اس لیے شہید کر دیا گیا کہ وہ پاکستانی تھے۔ ایک دو سال پہلے بھی ایک افغانی فوجی نے اسی طرح پاکستانی پشتونوں کو قتل کر دیا تھا جو مزدوری کرنے افغانستان گئے تھے اور پھر اس کی ویڈیو بنا کر شئیر بھی کی۔
المختصر کسی کا صرف پاکستانی پشتون ہونا افغان فوج کو اسکے قتل کا لائسنس دے دیتا ہے۔یہ ہے افغانستان کی پاکستان میں دہشتگردیوں اور دراندازیوں کی تاریخ جسکے باعث نہ کبھی پشتونوں اور نہ ہی پاکستان کو سکھ کا سانس لینے دیا۔