
فارم سنتالی کے منفی اثرات
تحریر
مرزا سکندر بیگ
روز اپنے آپ سے عہد کرتا ہوں کہ اب کچھ نہیں بولوں گا مگر روز میں یہ بات بھول جاتا ہوں کیا کریں اٹھہتر برسوں سے ہم وطنوں کے مسائل کم ہونے کی بجائے روز بروز بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں ایسا بھی نہیں کہ سبھی لوگ غیر مخلص تھے مگر یہ بھی سچ ہے کہ حصول آزادی کے بعد والی نسلوں نے اپنے فرائض منصبی دیانت داری سے سر انجام نہیں دیئے ریاستی اداروں جیسے ، عدلیہ پولیس ، مقننہ ، انتظامیہ، تعلیم صحت معیشت زراعت صنعت اکاونٹس آڈٹ بجٹ انجینرنگ اور دیگر سروسز مہیا کرنے والے شعبوں کو جدید حالات سے ہم آہنگ کرنے کی بجائے لوٹ مار مافیا کے حوالے کر دیا ضمیر فروش نوکر چوکیداروں نے ہوس اقتدار کی خاطر وطن عزیز کو دوسروں کی جنگوں میں الجھا دیا نتیجہ تباہی اور بربادی کے سوا اور کیا نکلنا تھا رہی سہی کثر طالع آزماوں نے بصیرت سے عاری غیر سیاسی تاجرانہ سوچ کے حامل اقتدار کے بھوکوں کو اپنا شراکت دار بنا کر ملکی معیشت کا جنازہ نکال دیا یوں ایک اچھے بھلے وسائل سے مالامال خطے کو سود خور مہاجنوں کے چنگل میں پھنسا دیا اپنے شہریوں کو ڈالر مافیا اور کمپنی کے استعماری لٹیروں کی تا حیات غلامی میں دے دیا یہاں ریڑھی بان کی دن بھر کی امدنی بھی شام سے پہلے آئی ایم ایف کی تجوریوں میں منتقل ہو جاتی ہے ہماری حثیت دن رات کام کرنے والے بھٹہ مزدوروں سے مختلف نہیں جو بھٹہ مالکان کا قرض اتارتے ہوئے خاک کا رزق بن جاتے ہیں سالانہ آڈٹ رپورٹس کے مطابق موجودہ حکمران اربوں روپے کے گھپلوں اور قومی آمدنی میں بڑے پیمانے پر چوری چکاری میں ملوث پائے گئے ہیں انکم جنریٹنگ محکموں پر سالہاسال سے خونخوار درندوں کا قبضہ ہے ہر ایک محکمے اور شعبے میں قابل ذہین ایماندار محنتی افسران اور اہلکاروں کو دیوار کے ساتھ لگا کر رکھا جاتا ہے خود میں نے ملازمت کے دوران انتہائی مشکل اور تکلیف دہ ایام گزارے ہیں میں اپنی نوکری کے دوران طویل عرصہ تک ایکس کیڈر پوسٹوں پر تعینات رہا ہوں وفاقی صوبائی محکموں میں قابل محنتی اور دیانت دار سٹاف کی قلت ہے تپ دق کے شکار محکموں اور دوسرے ایریاز میں آپریشن کلین اپ کی شدید ضرورت ہے لگتا ہے 25 کروڑ لوگوں کے اس ملک میں چند لوگ بھی ایسے نہیں جو اس گاڑی کا رخ منزلوں کی طرف جاتے ہوئے ٹریک پر ڈال دیں کونوں کھدروں میں چپ سادھے ایسے بے شمار درویش صفت بیٹھے ہوں گے جنہیں رسم شبیری ادا کرنے کے لئے کمر کس لینی چاہیے
حامی و ناصر ہے اس کا خالقِ ارض و سما ۔
سوچ لینا تم نتیجہ دشمنی کرتے ہوئے۔
جگمگائے گی ہمیشہ خاک ان کے خون سے۔
جان اپنی دے گئے جو دلبری کرتے ہوئے ۔
