پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اور سیاست میں مداخلت حقیقت یا تاثر؟
*تحریر سٹی اڈیٹر ڈاکٹر عبدالرحیم*
پاکستان ایک جغرافیائی اور اسٹریٹجک اعتبار سے نہایت اہم ملک ہے۔ اس اہمیت کی وجہ سے یہاں انٹیلی جنس اداروں کا کردار ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ عوام میں عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ ملک میں جو بھی سیاسی بحران، ہنگامہ آرائی یا غیر ملکی سازش ہوتی ہے تو اس کے پیچھے “ایجنسیوں” خصوصاً آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے۔ لیکن حقیقت اس سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ پاکستان میں صرف آئی ایس آئی ہی نہیں بلکہ کئی انٹیلی جنس اور تحقیقاتی ادارے کام کر رہے ہیں، جن کا اپنا الگ دائرہ کار اور کردار ہے۔
ذیل میں ہم ان اداروں کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ عوام کو واضح ہو کہ اصل میں سیاست میں مداخلت کہاں سے اور کیوں ہوتی ہے۔
1. آئی ایس آئی (Inter-Services Intelligence)
کردار:
پاکستان کی سب سے طاقتور اور مشہور انٹیلی جنس ایجنسی۔
اس کا بنیادی دائرہ کار بیرونی انٹیلی جنس ہے، یعنی دشمن ممالک کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا، سرحدوں کی حفاظت اور دہشت گردی کی منصوبہ بندی کو ناکام بنانا۔
1948 میں اس کا قیام عمل میں آیا، اور وقت کے ساتھ ساتھ 3یہ دنیا کی بڑی خفیہ ایجنسیوں میں شمار ہونے لگی۔
سیاست میں کردار:
اکثر الزامات لگتے ہیں کہ آئی ایس آئی سیاسی جماعتوں کی سرپرستی یا مخالفت کرتی ہے۔
1990ء کی دہائی میں مختلف عدالتوں اور کمیشنز نے یہ بات تسلیم بھی کی کہ بعض سیاسی اتحاد یا جماعتوں کو مالی اور انتظامی مدد فراہم کی گئی۔
تاہم ادارہ باضابطہ طور پر سیاست میں مداخلت سے انکار کرتا ہے اور اپنی توجہ قومی سلامتی پر مرکوز بتاتا ہے۔
2. ایم آئی (Military Intelligence)
کردار:
فوج کے اندرونی معاملات کی نگرانی۔
جاسوسی، بغاوت یا دشمن سے رابطے رکھنے والے عناصر کو بے نقاب کرنا۔
بنیادی طور پر فوجی اداروں تک محدود دائرہ کار رکھتی ہے۔
سیاست میں کردار:
براہ راست مداخلت نہیں کرتی، لیکن چونکہ فوج کا بطور ادارہ سیاست میں اثر و رسوخ رہا ہے، اس لیے ایم آئی بالواسطہ طور پر بعض اوقات سیاسی منظرنامے پر اثر ڈالتی ہے۔
3. آئی بی (Intelligence Bureau)
کردار:
پاکستان کی سب سے پرانی انٹیلی جنس ایجنسی، جو برطانوی دور سے قائم ہے۔
اس کا کام اندرونی معاملات پر نظر رکھنا ہے، جیسے سیاسی سرگرمیاں، مذہبی انتہا پسندی، لسانی تحریکیں اور جرائم پیشہ گروہ۔
سیاست میں کردار:
چونکہ یہ براہ راست وزیراعظم کے ماتحت کام کرتی ہے، اس لیے اکثر حکومتیں اسے اپنے سیاسی مخالفین پر نگرانی یا دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
فون ٹیپنگ، جلسے جلوسوں کی رپورٹنگ اور سیاسی جماعتوں کی اندرونی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اس کے ذمے ہوتا ہے۔
4. ایف آئی اے (Federal Investigation Agency)
کردار:
منی لانڈرنگ، سائبر کرائم، امیگریشن فراڈ اور کرپشن کے مقدمات کی تحقیقات۔
انٹرپول سے رابطے اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام بھی اسی ادارے کے ذمے ہے۔
سیاست میں کردار:
جب بھی کسی سیاستدان پر کرپشن یا منی لانڈرنگ کے کیس بنتے ہیں تو ایف آئی اے سب سے پہلے سامنے آتی ہے۔
اکثر حکومتِ وقت اس ادارے کو سیاسی دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرتی ہے، جس کی وجہ سے عوامی تاثر ہے کہ یہ “حکومت کی ایجنسی” ہے۔
5. سی ٹی ڈی (Counter Terrorism Department) اور رینجرز انٹیلی جنس
کردار:
دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ وارانہ سرگرمیوں کے خلاف کارروائیاں۔
خاص طور پر کراچی اور بڑے شہروں میں ان کا کردار نمایاں رہا ہے۔
سیاست میں کردار:
براہ راست سیاسی ادارہ نہیں، لیکن چونکہ بعض اوقات سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز یا مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، اس لیے یہ بھی سیاست کا حصہ بن جاتے ہیں۔
6. سپیشل برانچ (پولیس انٹیلی جنس ونگ)
کردار:
ہر صوبے کی پولیس کا حصہ۔
جلسے جلوس، مظاہرے اور امن و امان کی صورت حال پر رپورٹنگ۔
سیاست میں کردار:
چونکہ یہ براہ راست صوبائی حکومت کے ماتحت ہے، اس لیے اکثر اسے بھی سیاسی مخالفین کی نگرانی اور رپورٹنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
سیاست میں مداخلت — کیوں اور کیسے؟
پاکستان میں سیاست اور انٹیلی جنس اداروں کے تعلق کی ایک طویل تاریخ ہے۔
فوج کا بطور طاقتور ادارہ سیاست پر اثر و رسوخ ہمیشہ رہا ہے۔ اس اثر کو قائم رکھنے کے لیے بعض اوقات خفیہ ادارے استعمال کیے جاتے ہیں۔
سول حکومتیں بھی انٹیلی جنس اداروں کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتی ہیں تاکہ سیاسی دباؤ ڈالا جا سکے۔
اس وجہ سے عوام میں یہ تاثر بن گیا ہے کہ ہر سیاسی کھیل کے پیچھے “ایجنسیوں” کا ہاتھ ہوتا ہے، چاہے وہ درست ہو یا نہیں۔
عوامی تاثر اور اصل حقیقت
عوام کے نزدیک سب سے زیادہ انگلیاں آئی ایس آئی پر اٹھتی ہیں، کیونکہ یہ سب سے طاقتور اور خفیہ ادارہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاست میں مداخلت صرف ایک ادارے کا مسئلہ نہیں بلکہ طاقت کے توازن اور سول-ملٹری تعلقات کا نتیجہ ہے۔
کئی بار سیاستدان بھی اپنے مفاد کے لیے “ایجنسیوں کے نام” کا سہارا لیتے ہیں تاکہ عوامی ہمدردی حاصل کی جا سکے۔
نتیجہ
پاکستان میں انٹیلی جنس اداروں کا کام قومی سلامتی اور امن قائم رکھنا ہے، لیکن تاریخ اور سیاسی حالات کی وجہ سے یہ ادارے سیاست میں بھی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اس کردار کی نوعیت کبھی براہ راست تو کبھی بالواسطہ رہی ہے۔ عوام کو چاہیے کہ ہر الزام صرف آئی ایس آئی پر نہ ڈالیں بلکہ یہ سمجھیں کہ بعض اوقات دیگر ادارے اور خود سیاستدان بھی اس کھیل کا حصہ ہوتے ہیں۔
اگر پاکستان میں ادارے اپنے اصل مینڈیٹ تک محدود ہو جائیں اور سیاستدان اپنی ذمہ داریاں دیانتداری سے ادا کریں تو یہ بحث خود بخود ختم ہو جائے گی۔
✍️ یہ مضمون (تقریباً 1200 الفاظ پر مشتمل) عوامی آگاہی کے لیے ترتیب دیا گیا ہے تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو اور لوگ حقیقت کو سمجھ سکیں۔
