(رپورٹ ای این آئی)افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے حالیہ بیان پر پاکستان کو جذباتی نہیں بلکہ حقائق پر مبنی اور پُرعزم ردِعمل دینا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر 1980 کی دہائی میں پاکستان کی فوج، آئی ایس آئی اور عوام قربانیاں نہ دیتے تو آج افغانستان نام کا ملک ہی باقی نہ رہتا۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد کی کامیابی پاکستان کی خفیہ مدد، اسلحہ سپلائی، خفیہ تربیت اور لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی سے ممکن ہوئی۔
افغان قیادت کا آج یہ کہنا کہ “ہمیں چھیڑنے سے پہلے امریکا، نیٹو اور سوویت یونین سے پوچھ لو” دراصل تاریخی احسان فراموشی ہے۔ پاکستان نے چالیس سال تک افغان جنگ کی قیمت اپنے خون، اپنی معیشت اور اپنی سیکیورٹی سے ادا کی۔ لاکھوں پاکستانی شہید، زخمی یا بے گھر ہوئے مگر افغانستان کے لیے اپنے دروازے بند نہیں کیے۔
اب جب دہشتگرد گروہ افغان سرزمین سے پاکستان کے اندر کارروائیاں کر رہے ہیں، تو پاکستان کے پاس اپنے دفاع کا حق موجود ہے۔ اگر افغان حکومت اپنے وعدوں کے مطابق دہشتگردوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی تو پاکستان خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا۔
یہ وقت جذباتی بیانات کا نہیں، ذمہ داری لینے کا ہے۔ پاکستان کا مؤقف واضح ہے افغان سرزمین کو دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اگر کابل اپنی سرزمین پر قابو نہیں رکھ سکتا تو کم از کم دوسروں کو نصیحت کرنے سے گریز کرے۔ ہم نے افغانستان کے لیے خون بہایا ہے، اب اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہوں گے۔