(ای این آئی)یہ جنگ اچھی نہیں لگتی ، جب جب کسی ایک ملک کی حملے کی کوئی ویڈیو دکھائی دیتی ہے تو اللہ اکبر کی آوازیں پس منظر میں اداس کر دیتی ہیں، دونوں طرف ہی نعرہ تکبیر کی صدائیں گونج رہی ہیں،
افغان حکومت کا بڑا قصور یہ ہے کہ پاکستان میں متحرک دہشت گرد گروہوں کو بہرحال اس کی سرزمین میں پناہ ملتی ہے جسے روکنا اس کی ذمےداری تھی اور رہے گی۔۔۔ اور اگر وہ روک نہیں پاتا تو اسے خود پاکستان کے ساتھ مل کر آپریشن شروع کرنا چاہیے تھا ۔۔۔۔ لیکن اگر وہ روکنا نہیں چاہتا اور ان گروہوں کی سہولت کاری کرتے ہیں تو پھر پاکستان کا مقدمہ مضبوط ہے ۔
جہاں تک تعلق ہے جیکب آباد سے اڑتے امریکی طیاروں کی اڑانوں کا کہ جنہوں نے برسوں افغانوں کو خون رلایا تو یقیناً اس میں تب کی مشرف حکومت ملت کی مجرم ہے اور کوئی پاکستانی اس ظلم کو درست نہیں سمجھتا ۔۔۔۔۔ لیکن افغانستان کی حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ایک دور تھا جو گزر گیا ، اور اس سے کہیں اچھا دور وہ بھی تھا کہ جب کئی ملین افغان جنگ میں پاکستان آئے اور بطورِ مہمان چالیس سال یہاں رہے ، سکون سے رہتے ہوئے اربوں کھربوں کے کاروبار کئے ۔۔ سو ہر دو ادوار کے اپنے منفی مثبت تھے ، جن کو بھلا کر آگے بڑھنا ہو گا ۔
افغان حکومت کو یہ بات کسی اصول کی طرح سمجھنی ہو گی کہ اس کا ہمسایہ ملک پاکستان کسی بھی صورت میں سرحد پار سے آتے دہشت گردوں کی پشت پناہی اب مزید برداشت نہیں کر رہا سو اسے اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنا ہو گی ۔۔۔
اس کے وزیر خارجہ نے بھارت میں کہا کہ ان کو امن چاہئے تو امن کی کنجی ان کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔
دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ مذاکرات کی کوئی صورت نہیں تو یقیناً یہ جملہ مقامی دہشت گردوں کے خلاف تو مانا جا سکتا ہے گو ہم کہتے ہیں کہ وہاں بھی آخر آپ کو میز پر بیٹھنا پڑے گا ۔۔۔۔لیکن حکومتوں کے درمیان تو آخری حل ہمیشہ مذاکرات ہی ہوتے ہیں اور جب صورت حال یہ ہو کہ کوئی فریق دوسرے کو مکمل ختم نہیں کر سکتا تب مذاکرات کے دروازے بند کرنا ممکن نہیں ، بلکہ غیر حقیقی دنیا میں رہنے والی بات ہے ۔
پاکستان نے کل افغانستان پر حملے کیے ، رات افغانستان نے اپنی فیس سیونگ کرنے کے لیے سرحدوں پر کارروائی کی اور ساتھ اعلان کر دیا کہ ان کے ” اہداف ” مکمل ہو گئے ہیں اور مزید کارروائی نہیں کی جائے گی اگر پاکستان مزید دراندازی نہیں کرتا ۔۔۔
گویا یہ سفید جھنڈا لہرایا گیا ، میں سمجھتا ہوں کہ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں مذاکرات کا آغاز ہوتا ہے ۔ ایسے ملک ، دوست اور دشمن ہمسائے کے ساتھ مذاکرات کہ جو عجیب سرحدی ساخت رکھتا ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف ایک ہی طرح کے لوگ اور خاندان بستے ہیں ۔ چچا ادھر اور تایا زاد اُدھر ۔۔۔ آدھا قبیلہ پاکستان اور باقی افغانستان ۔۔۔۔۔ پھر ہر دو کلمہ پڑھتے لڑتے ہیں ۔۔
ایسے میں اگر آپ کا ہاتھ اونچا ہے ، طاقت آپ کے پاس زیادہ ہے ، آپ کے بقول کچھ اہداف حاصل بھی کر لیے تو اس لڑائی کا اول اور آخر مذاکرات سے مسائل کا حل ہے ۔ اس لڑائی کی طوالت کا افغانیوں سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہو گا ۔ پاکستان کو ضرورت ہے کہ اس محاذ کو جلد پر سکون کیا جائے کہ مشرقی محاذ کی خبریں پریشان کن ہیں ۔ کہ جہاں مودی کی آر ایس ایس حکومت جنگ چھیڑنے کے بہانے تلاش کر رہی ہے ۔
اس پس منظر میں چین اور سعودی عرب کے ساتھ فوری روابط اور مذاکرات سے افغانستان حکومت پر دباؤ ڈالنا اور بات چیت سے ان مسائل کا حل تلاش کرنا انتہائی ضروری ہے۔