
سرگودہا(رپورٹ بیورو)سرگودہا سابق اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر کی کرپشن بے نقاب کرنے کا شاخسانہ،گورنمنٹ جامعہ قاسم العلوم ہائی سکول انتظامیہ کا اپنے ہی محکمہ کے سابق ٹیچر کو سکول بلوا کر منصوبہ بندی کے تحت بدترین تشدد،15 پر جھوٹی کال,پولیس کی ملی بھگت سے غیرقانونی دفعات کے تحت مقدمہ کا اندراج بھی کروادیا,پولیس ظالموں کی آلہ کار بن گئی,خفیہ ہاتھ بھی شامل,عدالتی حکم سے میڈیکل میں بدترین تشدد ثابت,ایڈیشنل سیشن جج کے واضح حکم کے باوجود پولیس مقدمہ درج کرنے سے انکاری،ڈھائی ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود سابق متاثرہ ٹیچر انصاف کے لیے دربدر،ڈی پی او,آرپی او سرگودھا رینج،ڈپٹی کمشنر،کمشنر سرگودھا ڈویڑن،ائی جی پنجاب پولیس،وزیراعلی پنجاب،چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ لاہور,چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف سے فی الفور نوٹس لیتے ہوئے کاروائی کا مطالبہ،تفصیلات کے مطابق سیٹلائٹ ٹائون ڈی بلاک کے رہائشی سابق سرکاری ٹیچر فضل الرحمن نے بتایا کہ میں نے دوران ملازمت محکمہ تعلیم کے سابق AEO ابوبکر جو کہ محکمہ کا ناسور بن چکا ہے جس کی کرپشن بے نقاب کرنے کے جرم میں مجھ پر ایک خاتون اہلکار جو اکثر غیر حاضر رہتی تھی کو آلہ کار بنا کر فرضی,من گھڑت اور بے بنیاد سٹوری بنا کر مجھے نوکری سے نکال دیا گیا جو کہ محکمانہ انکوائری سے ثابت ہے کہ میں اس میں سراسر بے قصور تھا اور اس ساری سٹوری کا ماسٹر مائنڈ ابوبکر سابق اے ای او ہی تھا اب یہ ابوبکر بطور ایس ایس ٹی ٹیچر گورنمنٹ جامعہ قاسم العلوم تعینات ہو گیا اور ہیڈ ماسٹر افتخار چیمہ کی آشیر باد سے میٹرک کے سٹوڈنٹس کو پڑھانے کی بجائے مڈل کے بچوں کو پڑھا رہا تھا اس بے ضابطگی کی بابت میں نے پھر آواز اٹھائی تو اس کی پاداش میں گورنمنٹ جامعہ قاسم العلوم کے ہیڈماسٹر افتخار چیمہ نے ابوبکر, ،شاہد اسلام،طاہر ریاض و دیگر کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کی اور طاہر ریاض انگلش ٹیچر کو میرے گھر بھیجا جس کو میں طبیعیت ناساز ہونے کی وجہ سے مل نہ سکا جس نے مجھے فون کیا کہ آپ صبح سکول آئیں ہیڈماسٹر صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں میں صبح موٹر سائیکل پر سوار سکول چلاگیا سکول کے باہر کیمرہ نصب ہے میں گیٹ پر اندراج کروانے کے بعد جونہی اندر داخل ہوا تو وہاں پر موجود افراد مجھے ذبردستی پکڑ کر ہیڈماسٹر کے کمرہ میں کے گئے جہاں پر مجھ پر تمام نے ملکر بہیمانہ تشدد کیا جس سے میں بے ہوش ہو گیا مجھے پھر ہوش میں لاکر تشدد کرتے رہے میری ویڈیو بناتے رہے میری جیب میں موجود پندرہ ہزار بھی نکال لیے میری نازک حالت اور مرجانے کے ڈر سے بعد ازاں جھوٹی کہانی بنا کر 15 پر کال کی گئی جس پر موقع پر پولیس آگئی بجائے اس کے کہ پولیس موقع پر پہنچ کر تفتیش کرتی میرا علاج معالجہ اور میڈیکل کرواتی پولیس نے مجھے انتہائی زخمی حالت میں اٹھا کر گاڑی میں لٹایا اور مجھے تھانہ سیٹلائٹ ٹائون لےگئے وہاں پر لیجاکر پولیس اہلکار بھی مجھے ڈراتے اور دھمکاتے رہے اور بعد ازاں غیر متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کروادیا جبکہ مورخہ 22-05-2025 کو عدالت کے حکم پر میرا میڈیکل کروایا گیا جس میں تشدد ہونا ثابت ہوا عدالتی حکم پر میرے ایکسرے کروانے کی بجائے تفتیشی افسر نے مجھے جیل بھیج کر عدالتی رحم وکرم پر چھوڑ دیا ضمانت پر رہا ہونے کے بعد میں نے میڈیکل رپورٹ مکمل کروائی اور کراس ورشن کے اندراج کے لیے ایسے ایچ او کو درخواست گزاری جس پر کوئی کاروائی نہ ہو سکی جس پر میں نے اندراج مقدمہ کے لیے سیشن جج کو درخواست گزاری جس پر ایڈیشنل سیشن جج عتیق الرحمن نے24-07-2025 جج کو ایس ایچ او کو مقدمہ کے اندراج کا حکم دیا جس پر ایس ایچ او تھانہ سیٹلائٹ ٹائون اور تفتیشی سب انسپکٹر کاشف شہزاد تاحال عمل درآمد کرنے سے صاف انکاری ہے اعلی حکام سے نوٹس لیتے ہوئے کاروائی اور انصاف دلوائے جانے کا مطالبہ۔
