میجر(ر) ساجد مسعود صادق
25/26 اگست کی رات کو بلوچستان کے صوبے کے لگ بھگ 10 اضلاع میں بیک وقت دہشت گردوں کا حملہ جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں کے بارے میں جب حقائق جاننے کی کوشش کی جائے تو سب سے پہلا سوال یہ اُٹھتا ہے کہ یہ حملہ 25/26 اگست کی رات کو ہی کیوں کیا گیا؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا ” بلوچ لبریشن آرمی” اتنی منظم اور طاقتور ہے کہ وہ بیک وقت پورے بلوچستان میں حملے کرسکے؟ تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ بلوچستان لبریشن آرمی کے پاس جدید ترین ہتھار کمیونیکیشن کا نظام (Star Link Internet Technology) کس نے مُہیا کیئے؟ چوتھا اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا بلوچستان لبریشن آرمی پاکستانی بلوچ نیشنلسٹ موومنٹ کا حصہ ہے یا یہ تنظیم کسی بیرونی قوت کے اشاروں پر ناچ رہی ہے؟ اور آخر میں یہ سوال اہم ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر اور بلوچ لبریشن آرمی سے ہمیشہ سے نپٹنے کے لیئے حکومتِ وقت اور عسکری اداروں کی اسٹریٹیجی کیا ہونی چاہیئے یعنی بلوچ لبریش آرمی اور غیر مُلکی قوتوں کے ہاتھ میں کھیلتے ان دہشت گردوں کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن ٹھیک ہے یا ایک گرینڈ ملٹری آپریشن کی ضرورت ہے؟
بعض محققین، مُبصرین اور مُفکریں کی یہ رائے ہے کہ چونکہ سن 2006 میں نواب اکبر بُگٹی کی سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں ہلاکت ہوئی اس لیئے یہ دن ان نیشلسٹ باغیوں کے لیئے یادگار ہے اور بلوچ لبریشن آرمی کے 25/26 کی رات کے حملے میں سکیورٹی اداروں کے لیئے ایک پیغام چُھپا ہے۔ اس کی دوسری ممکنہ توجیح یہ ہوسکتی ہے کہ اس سارے حملے کے منصوبہ ساز اس مخصوص رات کو حملے کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ بلوچ نیشنلسٹ قوتوں کا اپنا “پاور شو” ہے اور اس میں کوئی بیرونی طاقت ملوث نہیں۔ پاکستان میں ایک بیمار، کُند ذہن اور پاکستان قوتوں کے پراپیگنڈے کا شکار طبقہ فکر یہ چرچا بھی کرتا نظر آتا ہے کہ اس نئی لہر کے پیچھے موجودہ حکومتی اتحاد اور بیرونی قوتوں (اشارہ امریکہ کی طرف ہے) کے درمیان کوئی معاہدہ ہوسکتا ہے جس کے تحت دہشت گردوں کو ایک بار پھر کُھلی چُھوٹ دی گئی ہے۔ اپنے ان افکار کے حق میں اس بصیرت سے عاری طبقے کی دلیل یہ ہے کہ “عمران خان کے دور میں تو دہشت گردی نہیں ہوتی تھی اور یہ دہشت گردی کمزور حکومت کی دلیل ہے۔ اسی طبقہ فکر میں چند انتہا پسند یہاں تک چلے جاتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں یہ دہشت گردی پاک فوج خود کروا رہی ہے تاکہ “عمران خان کیس” سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جاسکے۔
باریک بینی اور غیرجانبدارنہ انداز سے بلوچ لبریشن آرمی کے پلیٹ فارم سے جو دہشت گردی شروع کی گئی ہے کی جب تحقیق کی جائے تو صورتحال مُختلف نظر آتی ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی کا ایک کمانڈر “اسلم عرف اچھو” پچھلے دنوں افغانستان میں ایک خود کُش حملے میں مارا گیا یہ وہی دہشت گرد ہے جس میں کراچی میں حملہ کرکے کئی چینی باشندے ہلاک کیئے تھے۔ یہ ایک دفعہ سکیورٹی اداروں کے آپریشن کے دوران جب یہ زخمی ہوا تو اسے افغانستان کے راستے بھارت پہنچایا گیا جہاں اُس کا علاج ہوا۔ اسی طرح سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں سے جو اسلحہ برآمد ہوا ہے وہ امریکی ساخت کا ہے اور پینٹا گون بھی یہ تصدیق کررہا کہ یہ اسلحہ افغانستان سے آیا ہے کیونکہ امریکہ نے لگ بھگ بیس ارب ڈالر کا یہ اسلحہ افغانستان کو سپلائی کیا تھا۔ پینٹا گون کے اس اعتراف کو عام ذہن سے نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکی یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے سے الجھیں؟ اسی طرح بلوچ لبریشن آرمی کے دہشت گرد جو انٹر نیٹ کمیونیکیشن استعمال کررہے ہیں وہ ایک امریکی انجینیئر جو پہلے ٹویٹر کا مالک تھا اور اب سوشل میڈیا “X”کا مالک ہے اُس کی کمپنی SpaceX Corp کا بنا ہوا ہے اور یہی کمیونکیشن کا نظام یوکرین کی فوج روس کے خلاف جنگ میں استعمال کررہی ہے۔
اسی طرح بلوچ لبریشن آرمی کا دوسرا کمانڈر حیر بیار مری سن 2017 سے برطانیہ میں ہے ایک دفعہ سن دو ہزار 2013 میں اُس کے خلاف برطانوی عدالت میں دہشت گردی کا کیس بھی چلا جس میں اُسے تمام الزامات سے بری قرار دے دیا گیا۔ اسی طرح اگر ماضی میں جھانکا جائے تو بھارتی نیوی کا حاضر سروس اور بھارتی انٹیلیجنس ایجنسی “را” کا ٹاپ ایجنٹ ایران میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی پلاننگ بھی کرتا تھا اور کوارڈینیٹ بھی کراتا تھا اور عُزیر بلوچ بھی ایران سے ہی آیا تھا جو کراچی میں دہشت گردی کی کئی وارداتوں میں ملوث تھا۔ ان سارے انکشافات کے ساتھ ساتھ اب آخری بات یہ رہ جاتی ہے کہ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر بلوچ خاتون ماہ رنگ بلوچ کی ایک آڈیو وائرل ہوئی جس میں گوادر میں راجی مُچی اجتماع میں اُس کی ناکامی پر ایک غیر مُلکی ایجنسی کا اہلکار اُس کی کروڑوں روپے ضائع کرنے پر سرزنش کررہا تھا۔ یہ ساری تحقیق ثابت کرتی ہے کہ یہ سارا منصوبہ ناصرف پاکستان کے باہر تیار کیا گیا بلکہ دہشت گردوں کی رہنمائی بھی کی گئی، انہیں ضرروی سامان اور اسلحہ بھی دیا گیا اور اُن کے مختلف گروپوں میں کوارڈینیشن بھی پاکستان سے باہر بیٹھ کر کرائی گی جس میں ممکنہ طور پر کئی ممالک شامل ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن جن ممالک کا ذکر کیا ہے ان میں ظاہری طور پر ایران کو چھوڑ کر باقی سب ایک ہی بینر (امریکی اتحاد) کے نیچے مشترکہ ایجنڈے کے لیئے کام کرہے ہیں اور وہ ایجنڈا پاک چین کے مُشترکہ پراجیکٹ “سی پیک اور گوادر پورٹ” کی تعمیر کو ناکام بناناہے۔ ایران ممکنہ طور پر اس میں اس لیئے شامل ہوسکتا ہے کہ گوادر پورٹ کی تعمیر سے اُس کی چاہ بہار پورٹ پر منفی معاشی اثر پڑے گا جبکہ باقی سارا اتحادی ممالک کا وہ گروہ ہے جو ماضی کے “ایسٹ ۔ ویسٹ” بلاک کی طرح امریکی بلاک کا حصہ ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ امریکہ چین کی معاشی جنگ کی وجہ سے چین مخالف قوتوں نے کھیل رچایا ہے اور چین کے ساتھ ساتھ اُن کا ٹارگٹ پاکستان بھی ہے۔ امریکہ اور اُس کے اتحادی اس خطے میں کسی طور پر امن قائم نہیں ہونے دینا چاہتے جبکہ پاکستان اور چین ملکر ان تمام قوتوں کا مقابلہ کررہے ہیں اسی لیئے پاکستان کے طول و عرض سمیت بلوچستان میں چینی انجینئرز کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور اسی طرح پنجابی یا دیگر افراد اور زائرین کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔
موجودہ حکومت کا آرمی کو دہشت گردوں سے نپٹنے کے لیئے بیس ارب روپے کا فنڈ ریلیز کرنا، چین کے آرمی چیف کو ملٹری ایوارڈ سے نوازنا اور ایک اور حُسینہ واجد کی گورنمنٹ کا تختہ اُلٹنے کے بعد چین، بنگلہ دیش اور پاکستان تعلقات کا ممنکہ طور ہر نیا باب اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر جاری کشمکش کے درمیان پاکستانی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ بڑی مہارت سے اپنی خارجہ پالیسی کوایڈجسٹ کرتے جارہے ہیں اور ساتھ پاکستان مخالف قوتوں کو یہ پیغام بھی بھجوارہے ہیں کہ کُچھ بھی ہوجائے سی پیک اور گوادر پورٹ پراجیکٹس اب مکمل ہوکر ہی رہیں گے۔ پچھلے دنوں اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کو “فتنہ خوارج” قرار دینا اور اُن کا قلع قمع کرنے کا اعلان کرنا، چین کے ساتھ ہر حال میں تعلقات کو آگے بڑھانا اور دہشت گردوں کے ساتھ سختی سے نپٹنا بتا رہا ہے کہ پاکستان درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ بلوچ لبریش آرمی سے کیسے نپٹا جائے اس کا جواب بڑا سادہ سا ہے جہاں ٹارگیٹڈ آپریشن سے کام چلتا ہے وہاں ٹارگیٹڈ آپریشن ہی کیا جائے اور بلوچستان میں جہاں گرینڈ ملٹری آپریشن کی ضرورت ہے اس سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر بیٹھے عوام کو احتجاجوں اور انتشار کی سیاست پر اُکسانے والے دہشت گردوں کے ڈیجیٹل سہولتکاروں کے ساتھ بھی سختی سے نپٹا جائے۔