بھاولپور(بیورورپوٹ)ڈاہرانوالہ کا رورل ماڈل ہیلتھ کمپلیکس کا کوئی پرسان حال نہیں ہاسپٹل ماڈل اور سہولت کے اعتبار سے دیہی مرکز سے بھی بدتر۔۔۔۔5 ڈاکٹروں آسامیوں والا ہاسپٹل صرف دو ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر۔۔۔۔نہ ایمرجنسی کی کوئی سہولت اور نہ رات کو ڈاکٹر موجود سرکاری ہسپتال ڈاہرانوالہ کا اللہ ھی حافظ۔۔۔حکومت کا 55 دیہات اور چار یونین کونسلوں اور ڈاہرانوالہ شہر کی عوام کو طبی سہولتیں پہچانے کے لئے بنائے جانے والے ماڈل ہاسپٹل میں صرف دو ڈاکٹر حضرات اور صرف ایک لیڈی ڈاکٹر موجود ھیں جو حکومت پنجاب کی عوام سے محبت کا عملی منظر پیش کر رہی ھیں.سرکاری ماڈل ہاسپٹل ڈاہرنوالہ میں چار ماہ سے ادویات ناپید ہیں۔بچوں کو دینے کے لئے کوئی سیرپ نہیں۔سرکاری ھاسپٹل میں سہولتوں کا یہ عالم ھے کہ پیناڈول اورپیراسٹامول کی گولی بھی موجود نہ ھے۔ذیابیطس(شوگر) کے مریضوں کے لئے پہلے ایک سال بعد انسولین کبھی کبھار مل جاتی تھی اب وہ بھی سہولت ختم ھے۔ہاسپٹل میں قائم 1122اور ایمبولینس کی سہولت پہلے موجود تھی جو اب عملہ سمیت بند کردی ھے اب چاہے کتنا بڑا ھی حادثہ کیوں نہ جائے۔زخمیوں اور ہارٹ پیشنٹ کو لانے کی یہ سہولت بھی بند ھے۔اور ابھی بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی حکومت کی جانب سے ڈیلوری کی سہولت کے لئے ہاسٹل میں موجود چھوٹی ایمبولینس بھی گذشتہ تین ماہ سے بائے بائے ھے۔۔۔۔اور عوام کرتی پھرتی ھے ہائے ہائے۔ڈاہرانوالہ کا سرکاری ہاسپٹل ملکی معیشت کی طرح بیٹھتا جارہا ھے۔اور ہاسپٹل کے انچارج ترقی پاکر بھی بے بس نظر آتے ھیں کیونکہ جب سرکاری ہسپتال میں دور دراز سے آئے مریضوں نے محض اگر پرچی لیکر ادویات کے بغیر خالی ہاتھ ھی لوٹ کر جانا ھے تو پھر یہ کروڑوں روپوں کی لاگت سے عوام کو طبی سہولتیں پہچانے کے لئے یہ ماڈل ہسپتال بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ڈاہرانوالہ کے ماڈل ہسپتال میں فزیشن اور سرجن کی آسامیاں خالی پڑی ہوئی حکومت کی عوام سے محبت کا عملی ثبوت پیش کرتی نظرآتی ھیں ادارے میں پائی جانے والی خامیوں اور کمی کا ذمہ دار سربراہ ادارہ ھوتاھے۔ادارہ کا سربراہ اگر اھل ہو تو مسائل بڑھنے کی بجائے کم ہو جاتے ھیں۔۔۔۔شاعر نے کیا خوب کہا ھے
کہ آپ ھی اپنی اداؤں پہ کچھ غور کریں
ھم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔