شاہد بیگ
بیورو چیف گجرات ای این آئی
پرسوں گجرات سے کھاریاں دوران سفر اچانک طبیعت خراب ہوگئی ۔ کھاریاں پہنچ کر جب میں آفس کے ساتھ پرائیویٹ ہسپتال جانے لگا ۔ تو میرے دوست شہزاد نے کہا پرائیویٹ ہسپتال والے بہت زیادہ بل بنا دیتے ہیں ۔ آپ کو میں THQ ایمرجنسی میں چھوڑ دیتا ہوں ۔ سنا ہے بڑا اچھا انتظام ہے ۔میرے بھی ذہن میں آیا سوشل میڈیا پر پوسٹیں تو میں نے بھی دیکھی ہیں ۔ خیر دوست نے مجھے ہسپتال پہنچا دیا ۔میں ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوا ۔ فی میل سٹاف نے مجھے چھوٹے کمرے کی طرف اشارہ کیا ۔ وہاں ڈاکٹر کی کرسی پر موجود کوئی تقریباُاٹھائیس تیس سال کا ویل ایڈریس جوان جس سے میں نے پوچھا آپ ڈاکٹر صاحب ہیں کہتا نہیں ڈاکٹر صاحب آنے والے ہیں آپ باہر بیٹھو اس وقت تقریباُ پونےدو کا ٹائم تھا ۔ میں باہر نکل کر کرسیوں پر لیٹ گیا ۔تھوڑی دیر بعد وہ بندہ بھی باہر نکلا اور چلا گیا ۔میں سٹاف سے پوچھا یہ کون تھا ۔ تو کسی نے جواب نہ دیا ۔سیکورٹی گارڈ سے پوچھا تو وہ الٹا مجھے کہتا ہے ۔میری اگلے دن سخت طبعیت خراب ہوگئی تو ڈاکٹر نہیں تھا ۔ میں نے بتایا میں جرنلسٹ ہوں تو کہنے لگا ابھی ڈاکٹر صاحب پہنچنے والے ہیں ۔خیر بیس سے پچیس منٹ لیٹ آنے والا ڈاکٹر اور تیس منٹ تک ڈاکٹر کے بغیر رہنے والی ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوا تو ڈاکٹر صاحب میرے بعد داخل ہو ئے ۔کرسی پر جونہی بیٹھے تو میں نے MS عزیز بھٹی شہید ہسپتال ڈاکٹر ایاز ناصر چوہان کے ساتھ اپنی پیکچر دکھائی اور اپنا تعارف کرایا تو ڈاکٹر صاحب نے جواب میں مجھے کہا میں بھی اخبار کا بیورو چیف ہوں ۔یہ سن کر میری خیرت گم ہوگئی کہ سرکاری ملازم اور صحافی ۔۔۔۔ اور اتنے میں ڈاکٹر صاحب نے ایک ٹیکنیکل سوال کیا” اس کے علاوہ آپ کرتے کیا ہیں “بس پھر میں نے ڈاکٹر کی طرف دیکھاتو میرا نام پتہ پرچی پر لکھ کر بلڈ پریشر چیک کیا شوگر کا پوچھا انجکشن لگاکر باہر پرائیویٹ میڈیکل سٹور کی دوائی لکھ دی ۔دوسرے مریض کو جس کا BP شوٹ کر گیا تھا ۔ اس سے کہا کتنے عرصہ سے مسئلہ ہے اس نے کہا دو ماہ سے تو اس سے کہا سوشل میڈیا استعمال کرتے ہو ۔تو وہ خاموش تھا ۔ کہنے لگا دوائی کسی ڈاکٹر سے کیوں نہیں لی ۔ بس پھر میں ادھر سےیہ سوچتا ہوا نکل آیا کہ لوگوں کو کیوں مس گائیڈ کرتےہیں جی بڑے اچھے انتظامات ہیں ۔ پوسٹیں لگا لگا کر اس “جھولی چک” کو شرم آنی چاہیے ۔ اپنے کسی پیارے کو اذیت میں مبتلا نہ کریں ۔ سوشل میڈیا کی ہر بات سچی نہیں ہوتی ۔