سولر انرجی پر ٹیکس، حقیقت کیا ہے؟
ساجد مسعود صادق
کہاوت مشہور ہے کہ “رائی ہو تو پہاڑ بنتا ہے۔”اگر پرائیویٹ صارفین کے سولر انرجی کے استعمال پر ٹیکس لگتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اب سورج کے استعمال پر حکومت نے ان ڈائریکٹ ٹیکس لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اگر ٹیکس نہ بھی لگا تو یوں سمجھ لیا جائے کہ عنقریب پاکستان میں سولر پینل کا بزنس بھی زیرعتاب آنے والا ہے اور اُس کی حتمی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ حکومت یہ ٹھیکہ کسی من پسند کاروباری شخصیت کو دے دے جو کہ پاکستان میں عام رواج ہے۔ ایک کہاوت اور بھی مشہور ہے کہ “اُلٹے بانس بریلی کو۔” حقیقت میں سولر پینل لگانے والے پاکستانی حکومت کی مدد کررہے ہیں لیکن پاکستانی حکمران پاکستان کو مدد پر نہیں “ٹھیکے اور کمیشن” پر چلانے کے عادی ہیں کیونکہ اسی سے حکومت میں شامل لُٹیروں کی گینگ کی “دیہاڑی” لگتی ہے۔
بجلی کے بلوں کے ہاتھوں مارے صاحبِ حیثیت لوگوں کے اپنے گھروں اور کاروبار کو سولر پاور پر مُنتقل کرنے کی کوشش اور ٹیکس کی افواہیں بے وجہ نہیں ہیں۔ اس کی حقیقت معروف سیاستدان اویس لغاری کی ایک ٹویٹ سے سمجھی جاسکتی ہے۔ موصوف کے ٹویٹ کے مندرجات یہ ہیں کہ “سولر پینل پر ٹیکس لگانے کی پاور پرچیزنگ ایجنسی یا پاور ڈویژن نے حکومت کو کوئی سمری نہیں بھیجی تاہم “نیٹ میٹرنگ سسٹم” شمسی توانائی میں غیر صحتمندانہ سرمایا کاری کو فروغ دے رہا ہے جس کا فیصلہ سن 2017 میں ہوا لیکن اب لوگوں کی کثیر تعداد کے سولر پاور پر منتقل ہونے کی وجہ سے ابھی تک غریبوں پر ایک روپیہ پینتیس پیسے فی یونٹ بوجھ پڑرہا جبکہ یہ بوجھ مُستقبل میں تین روپے فی یونٹ سے بھی بڑھ سکتا ہے۔
حقیقت تو یہ کہ حکومت کو ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے کیونکہ یہ لوگ اپنی جیب سے پیسے لگا کر جو ایکسٹرا بجلی پیدا کرتے ہیں حکومت اس کو سستا خرید کر غریب صارفین کے لیئے بجلی مزید سستی کرسکتی ہے لیکن لگتا ہے کہ “نیٹ میٹرنگ سسٹم” کی وجہ سے صارفین جو ایکسٹرا بجلی پیدا کرتے ہیں اُس کو اونے پونے خریدنے والی بجلی کی یہ کمپنیاں (جن پر حکومت پاکستان کا کوئی کنٹرول نہیں) اس بات پر راضی نہیں اور وہ ایک گھناؤنی اسکیم کے تحت عوام کو لُوٹنے کے پراجیکٹ میں سولر انرجی سسٹم کو ایک رکاوٹ سمجھنے لگی ہیں اور اب وہ حکومت پاکستان پر پریشر ڈال رہی ہیں کہ یہ کاروبار روکا جائے۔ ورنہ اُن کی پاکستان میں لُوٹ مار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
پاکستان چونکہ ایک ایسی اسٹیٹ بن چُکا ہے جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک، پٹرول اور گیس مافیا جیسے بین الاقوامی اداروں کے اشاروں پر ناچنے پر مجبور ہے اور پاکستان میں یہ ادارے کوئی بھی عوامی ویلفیئر کا کوئی کام کسی طرح بھی کامیاب ہونے نہیں دینا چاہتے۔ پاکستانی معیشت کو دیمک کی طرح مراعات کے نام پر سرکاری مشینری چاٹ کر کھا گئی ہے۔ اب تو غریب عوام پپر ٹیکس عائد کرنے کے لیئے قبر، کفن اور سانس پر ٹیکس لگانا ہی رہ گیا ہے ورنہ عوام ہر چیز پر ٹیکس دے رہی ہے جبکہ سہولیات کی بات کی جائے تو سکیورٹی، تعلیم، میڈیکل اور پینے کے پانی تک جیسی بُنیادی سہولتیں بھی پاکستانی عوام کو مُیسر نہیں بلکہ حکومتی ادارے ناصرف خود عوامی ٹیکس پر پل رہے ہیں بلکہ اُلٹا عوام کے خون پسینے کی کمائی میں بین الاقوامی اداروں کو حصہ دے رہے ہیں۔
سولر انرجی سسٹم کی اگر افادیت کو دیکھا جائے تو اس کا سب سے پہلا بڑا فائدہ پٹرول کی بچت ہے جو پاکستان کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ کھا جاتا ہے اور اس کی کمائی صرف غریب عوام سے ہی کی جاتی ہے کیونکہ حکومت اہلکار تو ویسے ہی پٹرول، گاڑیوں اور شُوفر ز کے فری میں مزے لے رہے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بین الاقوامی آئل اینڈ گیس مافیا کو پاکستان میں پٹرول کی کھپت کم ہونے پر اندیشہ ہے کہ اُن کا منافع کم ہوجائے گا۔ اور شاید آئی ایم ایف اور پاکستان دُشمن قوتوں کو بھی یہ اندیشہ ہو کہ پاکستان کی اگر معیشت بہتر ہوئی تو وہ ہمارے کنٹرول سے نکل جائے گا۔ اکیسویں صدی کی پاکستانی سیاسی حکومتیں جو بین الاقوامی بھیک پر چل رہی ہیں روٹیاں سستی کرکے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے نام نہاد پروگرامز کے ذریعے عوام کو باقاعدہ طور پر بھکاری بنانے کا گرینڈ پروگرام شروع کررکھا ہے۔
اگر حکومت وقت پاکستانی معیشت کو مضبوط کرنا چاہتی ہے تو انہیں سولر انرجی کے اُن صارفین جو ایکسٹرا بجلی پیدا کررہے ہیں اُن کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے ناکہ ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنی چاہیئں۔ پاکستان میں کاروبار، انصاف، سکیورٹی، تعلیم اور دیر سہولتیں کا جو حال ہے وہ کسی انتہائی پسماندہ افریقی مُلک سے بھی بدتر ہے جبکہ قرض اور حکمرانوں کی عیاشی کا مرض لاعلاج ہوچُکے ہیں اس کے لیئے حکمران کسی بھی حد تک جانے کے لیئے تیار ہیں۔ وطنیت اور پاکستان سے محبت عوام کے لیئے انہوں نے رکھ چھوڑی ہے۔ کیونکہ ان لوگوں کے کاروبار، اکاؤنٹس اور بچے بیرون ممالک داد عیش دے رہے ہیں۔
پاکستانی حکمران (سیاسی ہوں یا ڈکٹیٹرز) وہ پاکستان میں سوائے ایک موٹر وے (وہ بھی اب گروی ہے) کے علاوہ قوم کے لیئے کوئی بھی ایسا کام کرنے میں ناکام رہے ہیں جس سے عوام سُکھ کا سانس لیں۔شاید حکمران اس چیز سے بے خوف ہوچکے ہیں کہ عوام کسی دن اُن سے بغاوت بھی کرسکتے ہیں اور اُن کا یہ اندازہ ہے کہ اس غلام قوم پر جتنا ظلم کریں یا جتنا بوجھ ڈالیں یہ بلاچُوں چراں قبول کرلیتی ہے۔ مہنگی بجلی، پٹرول مافیا کا ساتھ دینے، گیس کک بیکس لینےمیں کئی حکومتی وزیروں حتٰی کہ ایک وزیراعظم تک کے اسکینڈل سامنے آچُکے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا؟ کیا عوام اپنے حق کے لیئے اُٹھے گی؟ (ختم شُد)