سکرنڈ(رپورٹ ولی محمد بھٹی)
تحریک آزادی کی جنگ میں سندھ کی آزادی کے لئے حر وں کے علاوہ انگریزوں سے اپنے بہادر دو ہزار ساتھیوں کے ساتھ اعلان جنگ کرنے والے انقلابی کردار” پرچو ودیارتی ” کی یاد میں سندھ تھنکرس فورم کے چیئرمین سید منیر شاہ ذاکری کی جانب سے انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے درگاہ پیر ذاکری پر ایک پروقار تقریب ہوئی جس میں سندھ کے نامور ادیبوں اور دانشوروں نے شرکت کی ۔ اس موقع پر دانشور سید منیر شاہ ذاکری نے کہا کہ زندہ قومیں اپنے ہیروں کو بھلاتی نہیں ہیں بلکہ انکو یاد رکھ کر انکے نقش قدم پر چلتی ہیں ۔ پرچو ودیارتی نے نہ صرف سندھ کی آزادی کی بات کی بلکہ اسکی آزادی کے لئے جدوجہد بھی کی نامور ادیب و دانشور تاج جویو کا کہنا تھا کہ جب بھگت سنگھ کو انگریزوں نے پھانسی دی تو اس وقت پرچو ودیارتی چھٹی کلاس کے طالبعلم تھے اس سانحہ کا ان پر گہرا اثر ہوا اور وہ اسکول کے پچاس طلباء کے ہمراہ نکلے اور احتجاجی جلوس نکالا ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن آرمی کو انہوں نے سندھ میں منظم کیا اور اپنی گوریلا کاروائیوں سے انگریز سرکار میں ہلچل مچا دی وہ کہتے تھے کہ انگریز سرکار نے وہ گولی ہی نہیں بنائی جو پرچو کو چھو سکے۔ ۔ قومپرست رہنما آصف بالادی کا کہنا تھا کہ پرچو ودیارتی نے سندھ کی آزادی میں انقلابی کردار ادا کیا انکے ساتھ عورتیں بھی اس جدوجہد میں شامل تھیں انکا کہنا تھا کہ میں سندھ کو الگ قوم اور دیس سمجھتا ہوں اسی لحاظ سے آزادی ہمارا حق ہے یہی سوچ جی ایم سید کی بھی تھی انکی زندگی پر موھن کلپنا نے آفتاب انقلاب کتاب لکھی ۔ انہوں نے جی ایم سید کو کہا کہ ہم نے انگریزوں سے آزادی کی جنگ لڑی اور اسے دیمک کھا گئی آپکی وجہ سے ۔ادیب جی ایم بھگت کا کہنا تھا کہ وہ کانگریس کے رہنمائوں سے کہتے تھے کہ میں آزادی مانگ کر نہیں لڑ کر لونگا ۔ گاندھی سے ملاقات کی تو سات دن انکے ساتھ تھے اس دوران انہوں نے نہ صرف زبانی بلکہ پوری فائل رکھی کہ مجھے سندھ 1843 سے قبل جیسے خودمختیار تھی ویسی چاہئے جس پر گاندھی نے کہا کہ تم فرار ملزم ہو یہاں سے بھاگ جائو اور میرا نام نہ لینا ۔ پروفیسر ادیب حمید سبزوئی کا کہنا تھا کہ انکی کاروائیوں کی وجہ سے 1943 میں انہیں جیل میں قید کیا گیا اور 63 سال کی سزا سنائی گئی لیکن پرچو اپنے ساتھیوں کی مدد سے 1945 میں فرار ہو گئے ۔ اور پھر گرفتار نہ ہوئے ۔ احمد شاکر کا کہنا تھا کہ پرچو ودیارتی نے اپنے 2000 ساتھیوں کے ہمراہ انگریز سامراج کا کشمور سے کراچی تک ناک میں دم کئے رکھا انکی گوریلا کاروائیوں میں کئی بینکوں پوسٹ آفسوں ٹرینوں اور دیگر سرکاری دفاتر سے مال لوٹ کر اسےسندھ کی آزادی کی جدوجہد کے کام میں لایا گیا۔ راکھیل مورائی کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان بننے سے پہلے ہندوستان چلے گئے تھے الہاس نگر سے ایم این اے منتخب ہوئے اور وہیں 2011 میں انتقال ہوا۔ ادیب مانک ملاح کا کہنا تھا کہ پرچو ودیارتی نے سندھ کے شہر خیر دیرو میں 15 جون 1919 کو جنم لیا آپ کے دل میں سندھ کی محبت رچی بسی ہوئی تھی ادیب علی نواز ڈاھری کا کہنا تھا کہ ھیمو کالانی پرچو اور دیگر نے ساتھ ملکر انگریزوں کو مجبور کیا کہ سندھ کو آزاد کریں انکی دھشت انگیز کاروائیوں نے انگریز سرکار میں ہلچل مچا دی تھی۔ تقریب سے جھانگیر ڈاھری، سائل پیرزادہ، امداد رند، معشوق دھاریجو اور دیگر دانشوروں ادیبوں اور ادب سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر ودیا پبلیکیشن کی جانب سے کتابوں کا اسٹال بھی لگایا گیا۔