احمد خان لغاری
کوہ سلیمان سے
صوبہ بلوچستان کے ضلع موسی خیل کے علاقہ راڑا شم جو لورالائی روڈ پر واقع ہے۔ یہ علاقہ ڈیرہ غازیخان کے سرحدی علاقہ بواٹہ سے چند کلومیٹر پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ اس علاقہ کے تمام اطراف بلوچ اقوام زیادہ تر آباد ہیں، مشرقی جانب ڈیرہ غازیخان کی تحصیل تونسہ کا علاقہ ہے اور لوگوں کی آمدورفت رہتی ہے۔ گذشتہ ماہ اگست کی 25/26 کی رات کو اسی علاقے میں مخصوص وردیوں میں ملبوس افراد پنجاب کی طرف جانے والی گاڑیوں جسمیں ٹرک اور چھوٹی گاڑیاں شامل تھیں، روک کر ان سے ڈرائیونگ لائسنس اور شناختی کارڈ طلب کرکے اور گاڑیوں سے نیچے اتار کر سامنے سے نہیں بلکہ انہیں ہدایت کی جاتی رہی کہ اپنا رخ دوسری طرف کریں اور انہیں گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ اس کاروائی میں پنجابی، سرائیکی سبھی لوگ شامل تھے بعد ازاں ان کی گاڑیوں کو آگ لگادی گئی۔ درجنوں انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور اسی طرح ان بے گناہ افراد کی گاڑیوں کو بھی جلادیا گیا۔ کئی لوگوں نے بسوں سے نکل کر اپنی جانیں بچانے میں کامیاب ہوئے۔ اس ساری کاروائیوں کی تصویریں اور وڈیوز ان لوگوں نے بھی بنائیں جو ملوث تھے اور دیگر لوگوں نے بھی یہ تمام خونی کاروائیوں کو قلمبند کیا۔ کافی دیر کے بعد ایف سی اور پاک فوج کے دستے جائے واردات پر پہنچے اور صورت حال کو کنٹرول کیا۔ صورت حال خرا ب کرنے اور بے گناہ لوگوں کے قتل عام میں ملوث بزدلوں کو منطقی انجام تک پہنچا یا۔ قارئین کرام! بلوچستان صوبہ وسیع علاقہ پر مشتمل ہے، صحرا اور سنگلا خ پہاڑوں میں بہت کم آبادی ہے، زیادہ تر لوگوں کا گذر بسر، سبزیوں، پھلوں اور مال مویشی پالنے پر ہے، اور بیشتر بلوچستان میں چھپے ذخائر سے بے خبر ہیں اور انہیں قیمتی ذخائر جسمیں سونے، کاپر اور لوہے کے ذخائر تیل، گیس جیسی معدنیات سے بے خبر ہیں لیکن بلوچ سردار جو بیرون ممالک میں تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں انہیں علم ہے کہ بلوچستان سونے کی چڑیا ہے۔ دوسری طرف افغانستان اور ایران جنکی سرحدیں اس صوبے سے منسلک ہیں وہ بھی موقع کی تلاش میں رہتے ہین اور یہی وجہ ہے کہ بلوچ سردار اپنے لوگوں کی حالت زار بہتر بنانے کیلئے آواز بلند کرتے رہے ہیں، نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کیلئے اسمبلیوں میں آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد متعدد مرتبہ بلوچ سرداروں کو جیلوں میں ڈالا گیا اور جو بچے تھے اور پاکستان کو ہی اپنا دیس اور وطن سمجھتے ہیں وہ گورنر اور وزیر اعلی بھی رہے، اسمبلیوں میں وہ قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی ہو وہاں اپنے مطالبات پیش کرتے رہے۔ اپنی نوجوان نسل کو جو ماضی میں ہوتا رہا ایسے قصوں کو دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ نواب اکبر بگٹی سے بات شروع کریں تو نواب اکبر بگٹی کئی بار وفاقی وزیر، گورنر اور بلوچستان کے وزیر اعلی منتخب ہوئے۔ انہوں نے پاکستانی بن کر اپنے مطالبات حکومت و ریاست کے سامنے رکھے لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی اور پھر وہ بھی پہاڑوں میں گم ہوگئے لیکن اسے تلاش کرکے ہمیشہ کیلئے مٹا دیا گیا۔ بلوچ عوام کا غم وغصہ فطری تھا اور پھر اسطرح بلوچ تنظیمیں منظم اور مسلح ہوکر سامنے آگئیں۔ ایسی تنظیمیں از خود پیدا نہیں ہوتیں بلکہ ملک دشمن عناصر اور قریبی ہمسایہ ممالک صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آپ سے سوال ہے کہ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد اگر سرفراز بگٹی کو بلوچستان کا سب کچھ بنا دیا جائے تو نفرت بڑھنا لازمی امر ہے کیونکہ نواب اکبر بگٹی کا خاندان یا تو روپوش ہے، بیرون ملک ہیں یا پھر اقتدار سے باہر لیکن نواب بگٹیوں اور سرداروں کے مقابلے میں ایسے خاندان کو اقتدار سونپ دیا جائے جو اکبر بگٹی کے دور میں بلوچستان میں نہیں ٹہر سکتے تھے۔ سانحہ موسی خیل راڑاشم کے بعد وزیراعظم کو ئٹہ پہنچے تو انہوں نے بھی باغیوں سے بات کرنے سے انکار کردیا۔ وزیر داخلہ محسن نقوی بلوچستان میں اگریہ کہے کہ بلوچستان میں ایسی کاروائیوں کیلئے ایک SHOکافی ہے اس بیان نے بھی صوبہ بلوچستان میں آگ بھڑکا دی جسکا وزیر داخلہ کو بھی شاید ادراک نہیں ہوگا کہ انہوں نے کیا بات کی ہے۔ بلوچستان سے ممبر قومی اسمبلی اور ایک سیاسی جماعت کے سربراہ اختر مینگل نے محمود خان اچکزئی کی موجودگی میں اسمبلی کی نشت سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کر دیا برملا کہا کہ بلوچستان آپ کے ہاتھ جا نہیں رہا بلکہ چلا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب انہیں کسی ادارہ پر اعتبار نہیں رہا۔ وہ اگر اپنے صوبے کے بچوں اور بچیوں کی چیخیں نہ سن سکیں اور اسمبلی میں بات کرنے نہ دی جارہی ہو تو کیافائدہ! انہوں نے کہا چار پانچ سیٹیں ان کے پاس ہوتی تھیں تو مجھ سے رابطہ کیا جاتا تھاجہاں پر کمیو نیکشن سسٹم بھی نہ ہو۔ اختر مینگل نے تو بندوق نہیں اٹھائی، میں تو پاکستان کے ساتھ ہوں اب میرے بس میں کچھ نہیں اب پہاڑوں پر بیٹھے افراد سے بات کی جائے۔ اختر مینگل کی گفتگو کے بعد بلوچستان ایک بھیانک تصویر پیش کر رہا ہے۔ ممکن ہے اختر مینگل کا استعفٰی منظور نہ کیا جائے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بلوچستان میں معرکہ آرائی کرنے سے پہلے اختر مینگل بھی پتلی گلی سے نکل رہے ہوں۔ لیکن قارئین کرام! بلوچستان آگ میں جل رہا ہے ایک وجہ بلوچستان کے نوجوانوں کے مسائل اور وسائل ہیں جو بہت عرصہ سے چل رہے ہیں اور ایسے لوگوں کی پشت پر غیر ملکی طاقتیں ہیں جن کی نظر سونا، چاندی لوھا اور کاپر پر نظر ہے جو طاقتیں اپنے قرضوں کے عوض بلوچستان کے قیمتی ذخائر کوجو نوچ رہے ہیں جسمیں ہمارے اپنے اسلامی بھائی بھی شامل ہیں۔ دوسرا مسئلہ بلوچستان کا گوادر کی بندرگاہ ہے جو عالمی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی کا سبب ہے۔ حکومت پاکستان اور ریا ست پاکستان ایک لاٹھی سے سب کو نہ ہانکیں۔ بلوچستان کے دوالگ مسائل ہیں اور دونوں میں گیر ملکی طاقتیں ملوث ہیں اور ہمارے اپنے اس میں استعمال ہورہے ہیں۔ ان مسائل کو الگ الگ طور پر حل کرنے کی کوشش کریں، گوادر الگ اور بلوچستان کے قیمتی ذخائر دوسرا مسئلہ ہے۔ ذخائر کو جو نچ رہے ہیں ریاست ان سے قبضہ چھڑوائے قرضوں کے بدلے ایسی جازت دینا خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ گوادر کے مسئلے کو سیاسی بنیا دوں پر حل کیا جائے۔ اختر مینگل نے تو درست کہاہے۔
اب مجھ سے کاروبار کی حالت نہ پوچھئے
آئینہ بیچتا ہوں اندھوں کے شہر میں
بلوچستان کے دوالگ مسائل ہیں اور دونوں میں گیر ملکی طاقتیں ملوث ہیں اور ہمارے اپنے اس میں استعمال ہورہے ہیں۔ ان مسائل کو الگ الگ طور پر حل کرنے کی کوشش کریں، گوادر الگ اور بلوچستان کے قیمتی ذخائر دوسرا مسئلہ ہے۔ ذخائر کو جو نچ رہے ہیں ریاست ان سے قبضہ چھڑوائے قرضوں کے بدلے ایسی جازت دینا خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ گوادر کے مسئلے کو سیاسی بنیا دوں پر حل کیا جائے۔ اختر مینگل نے تو درست کہاہے۔
اب مجھ سے کاروبار کی حالت نہ پوچھئے
آئینہ بیچتا ہوں اندھوں کے شہر میں
⭕⭕⭕⭕⭕