میجر (ر) ساجد مسعود صادق
تاریخ اہلِ عقل کے لیئے ایک ایسا دلچسپ مضمون ہے جس سے ناصرف وہ ماضی میں جھانک سکتے ہیں بلکہ اس کے باریک بینی سے مطالعہ کے بعد وہ مُستقبل کے متعلق بھی کافی حد تک دُرست اندازے لگا کر آنے والے واقعات سے عام لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں۔ لیکن تاریخ دانوں کی تحریروں کو کُچھ فتنہ پرور لوگ حقائق کی اُلجھی گُتھی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ایک مشہور انگریزی کہاوت ہے کہ “History Repeats Itself”مطلب یہ کہ تاریخ میں تسلسل کے ساتھ ایک جیسے واقعات رُونما ہوتے ہیں لیکن لوگ اس سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ اس کائنات کے خالق نے اپنی سب سے اہم خلق یعنی حضرتِ انسان کو اپنے الہامی کلام (قرآن کریم) تاریخ خُود پڑھا کر دعوت دی ہے کہ غور و فکر کرو۔ جس طرح کل کا باطل تھا آج کا باطل بھی بالکل ویسا ہی ہے اور اُس کی حرکات وسکنات بھی ویسے کی ویسی ہی ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جہاں لارنس آف عریبیا کا مشہور کریکٹر جس طرح عربوں کو خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت پر اُکساتا ہے وہیں برطانیہ درپردہ فرانس کے ساتھ یہ طے کرتا ہے کہ جب خلافت ٹوٹے گی تو کون سے علاقوں پر برطانیہ قبضہ رکھے گا اور کونسے فرانس کے زیر تسلط آئیں گے اور اسی طرح امریکہ کو فلسطینی زمین کے اندر اسرائیل بنانے میں اعتماد میں لیتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آج “بلوچستان اور کے پی کے” صوبوں کے کُچھ حصوں میں بظاہر پختونستان قائم کرنے کا نعرہ ہے لیکن درپردہ مغربی طاقتیں ان علاقوں کی اہمیت کے پیش نظر چین اور روس سے نپٹنے کے لیئے اپنا تسلط چاہتی ہیں۔ پاکستان میں سی پیک اور گوادر پورٹ جیسے منصوبے جو پاکستان کو ایک عظیم معاشی طاقت بنانے میں معاون ہوسکتے تھے ان کا حشر بھی کسی ایسے ہی “لارنس آف ایشیاء” کے ہاتھوں ہوا ہے۔ یہ کام پاکستانی قوم کا ہے کہ وہ کس کو لارنس آف عریبیا اور کس لیڈر کو اپنے لیئے “کمال اتا ترک” یا “طیب اردوان” جیسا مسیحا سمجھتے ہیں۔
76 سال پہلے کے پاکستان کو سامنے اگر رکھا جائے تو آج کے پاکستان میں بہت ساری اقدار میں ایک مماثلت پائی جاتی ہے۔ تاہم 76سال پہلے کے پاکستان میں اور آج کے پاکستان میں ایک معمولی سافرق ہے اور فرق یہ ہے کہ اُس وقت امریکہ سُپر پاور نہیں تھا بلکہ برطانیہ ایک فنا ہوتی ہوئی سُپر پاور تھی لیکن یہ تفریق بھی آج بے معنی ہے کیونکہ اُس وقت برطانوی سامراج بھارت کی پُشت پناہی کررہے تھے اور آج امریکہ بھارت کی پُشت پناہی کررہا ہے۔ جنگ عظیم اوّل کے وقت خلافت عُثمانیہ کے متعلق مغربی (یورپی عیسائی اور یہودی) مُسلمانوں کی واحد اکائی کو ایک باقاعدہ منصوبے کے مطابق توڑنے سے پہلے موجودہ تُرکی کو “یورپ کا مرد بیمار” کہتے تھے۔ آج پاکستان کا بھی ہُو بہو وہی حال ہے اور پاکستان کو بلا شُبہ “جنوبی ایشیاء کا مردِ بیمار” کہا جاسکتا ہے۔ آج پاکستان کے تمام صوبوں مین بھی وہی زہر پھیلایا گیا ہے جو عربوں کو خلافت عثمانیہ کے خلاف اکُساتے وقت پھیلایا گیا تھا۔
جس طرح سن1947 میں پاکستان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ نومولود مُلک چند ماہ بھی ایک آزاد مُلک کی حیثیت سے قائم نہیں رہ سکے گا کیونکہ اُس وقت پاکستان کے ساتھ برطانوی سامراج بھارتی پارٹنرز کے ساتھ ملکر زیادتی پر زیادتی کررہے تھے اور یہ کام آج بھی جاری و ساری ہے۔ سن 1947میں پاکستان کی جو معاشی حالت تھی آج بھی پاکستان کی معاشی حالت بالکل ویسی ہی ہے۔ اُس وقت جو پاکستانی حکمرانوں کا کردار تھا آج بھی ہُو بہو وہی ہے کیونکہ اُن کے ہاتھ ایسی غلام قوم لگ گئی تھی جس نے آزادی کا ابھی پورا مزا چکھا نہیں تھا۔ اُس وقت بھی پاکستان کے سول و فوجی حکمران اور بیوروکریسی دست وگریبان تھے اور آج بھی ہُو بہو وہی صورتحال ہے۔
آج جہاں بھارتی تھنک ٹینک یہ تجزیات کررہے ہیں کہ پاکستان سن 2030 میں ٹُوٹ جائے گا اسی طرح کا ایک تجزیہ امریکی مُفکر اسٹیفن پی کوہن بھی کرچُکا ہے کہ پاکستان آنے والے وقت مین ٹُوٹ جائے گا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ اس بات کا چرچا کُچھ پاکستانی ٹی وی اینکرز بھی دبے دبے لفظوں میں کرنا شروع ہوچُکے ہیں جن میں جیو ٹی وی کے مشہور اینکر حامد میر کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے جس میں وہ بھارتی تھنک ٹینک کے بارے میں بتارہا ہے۔ پچھلی بیس سالہ پاکستانی تاریخی اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان نے ہزار جتن کیئے ہیں کہ کسی طرح امریکہ اُس سے راضی ہوجائے مگر امریکہ کا پاکستان پر پریشر اور پاکستان میں دخل اندازی آئے روز بڑھتی ہی جارہی ہے جس کا کلائمیکس امریکی سفارتکار کی پاکستان کو دی گئی دھمکی ہے جو سائفر (کوڈڈ پیغام) کے نام سے پاکستان میں مشہور ہے۔ اس سائفر کے بعد کا پاکستان بالکل ایسے ہی نظر آتا ہے جیسے “میکاؤلی کا فلورنس” بین الاقوامی قوتوں کی گُذر گاہ بنا ہوا تھا۔
ایک طرف پاکستانی عوام کا حال یہ ہے کہ انقلاب فرانس سے تھوڑی دیر پہلے جیسے حالات سے گُذر رہے ہیں جن کے مطابق فرانس کے عوام کو حکمران طبقے نے بھوکا مارا اور آپس میں ساز باز کرکے لُوٹ لیا آج پاکستان میں بھی حکمرانوں کے گٹھ جوڑ نے پاکستانی عوام کو تو فاقوں تک پہنچا دیا ہے لیکن اُن کے بیرون ممالک بینک بیلنس، کاروبار اور اولاد خُوب پھل پُھول رہے ہیں۔ عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار، کاروبار کا نہ ہونا، مہنگائی کا طوفان، آمدن سے زیادہ یوٹیلٹی بلز اور بُنیادی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے عوام خُودکُشیوں اور فاقوں پر اُتر آئے ہیں۔ اور ایسے میں جیل میں بند پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کو امریکی انقلاب کے ہیرو “مارٹن لُوتھر “ جیسا تاریخ میں مقام نہ بھی دیا جائے تب بھی عوام بھرپور طور پر عمران خان سے اپنی محبت کا اظہار بھی کررہی ہے اور مسیحا بی سمجھ رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عوام حکمرانوں اور سرکاری مشینری سے بغاوت کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔
جس وزیرخزانہ کو سرکاری جہاز پر معیشت کی بحالی کے لیئے ثابت شُدہ کرپشن کے باوجود لندن سے پروٹوکول کے ساتھ لایا گیا وہ اپنے رفیق وزیراعظم کے ساتھ ڈالر اور پٹرول کی قیمت کو دُوگنا کرکے لندن پدھار چُکے ہیں اور چند ماہ کے (عبوری وزیر اعظم) نے بھی آتے ہی پہلے ہفتے میں عوام کو پٹرول کی مد میں جس طرح بیس روپے فی لیٹر کا جو ٹیکہ لگایا ہے اس سے لگتا ہے کہ حکمران خود چاہتے ہیں یہ عوام بغاوت کریں۔ پاکستان کے کئی شہروں میں مسجدوں کے ذریعے بجلی کے بل ادا نہ کرنے کے اعلانات کیئے جارہے ہیں کراچی میں تو عوام نے باقاعدہ طور پر واپڈا کے اہلکاروں کو مارا بھی ہے۔ چند ماہ کی گذشتہ حکومت کا دعوی کہ ہم نے پاکستان کی معیشت کو بحال کردیا ہے اُس وقت بالکل باطل نظر آتا ہے جس وقت اُس کے لیئے گئے قرضوں کو غور سے دیکھا جائے۔ اب پاکستان کا یہ حال ہے کہ معاشی طور پر پاکستان اتنا مقروض ہے کہ پاکستانیوں کی آنے والی دس نسلیں بھی یہ قرضہ اتار نہیں سکتیں۔
آج جہاں پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہُوچکا ہے اسی طرح سیاسی ڈھانچہ بھی یکسر مُفلوج ہوچکا ہےاور پاکستانی عدالتی نظام سرے سے لگتا ہے موجود ہے ہی نہیں۔ بلبلاتی عوام، دست وگریبان ادارے اور حکمران اور مغربی اور مشرقی بارڈرز پر آئے روز بڑھتا پریشر بھی پاکستان کے آنے والے مزید بُرے حالات کی خبر دے رہا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی بے فکر یا بے خبر ہے تو وہ پاکستان قوم اور حکمران ہیں دُشمن تو اپنا کام انتہائی تیزی اور تندہی سے کررہا ہے۔ کل تک کشمیر پاکستان کی شہ رگ تھا آج وہ قصہ پارنیہ ہے لگتا ہے کاتب تقدیر بھی فیصلہ کرچُکا ہے کہ پاکستانی قوم کو سن 1971جیسا ایک دھچکہ اور دیا جائے۔ کاش کوئی اس خواب خرگوش میں مست چوبیس کروڑ عوام کے جتھے اور اس کے حکمرانوں کو جگا کر حالات کی سنگینی سے آگاہ کردے (امین )۔