ایچ ڈی اے مزدور یونین (سی بی اے )
حیدرآباد اور مہران ورکر یونین( سابقہ سی بی اے )کے رہنمائوں نے ایچ ڈی اے حیدرآباد اور واسا ملازمین کی 8ماہ کی تنخواہ ، بیوائوں ریٹائرڈ ملازمین کی 12 ماہ پینشن کی عدم ادائیگی کے خلاف تلسی داس پمپنگ اسٹیشن پرمشترکہ پر امن احتجاجی مظاہر ہ اور دھرنا کے مقام پر صبح سویرے پولیس کی بھاری نفری تعینات کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پویس کی نفری کی موجودگی میں دونوں یونین کی جانب سے تلسی داس پمپنگ اسٹیشن پر احتجاج ہوا اور بعد ازاں ملازمین ریلی کی شکل میں حیدرآباد کلب پہنچ کر احتجاج کیا ۔ اس موقع پر ایچ ڈی اے مزدور یونین (سی بی اے ) حیدرآباد کے جنرل سیکرٹری انصاف علی لاشاری اور مہران ورکر یونین (سابقہ سی بی اے ) کے جنرل سیکرٹری اسلم عباسی سمیت یونینز کے دیگر عہدیداران نے پر امن احتجاجی مظاہرین اور شرکاء دھرنا سے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ ادارے کے مظلوم محنت کش ملازمین ماہ جنوری 2024 سے لیکر ماہ اگست تک اور پینشنرز اپنی 12ماہ کی پینشن سے محروم ہے جو موجودہ ایچ ڈی اے اور (واسا) انتظامیہ کی نا اہلی اور انکی موجودہ کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے اور ہمیں تنخواہ پینشن مانگنے پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کرکے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی گئی لیکن ہمارے حوصلے بلند ہے ہم اپنی تنخواہ اور پینشن کا آئینی اور قانونی حق مانگنے سے کبھی دستبردار نہیں ہونگے جبکہ اس وقت پوری امت مسلمہ سرکار دوعالم ۖکے میلاد کی خوشی میں اپنے گھروں محلوں گلیوں کو سجانے میں مصروف ہے اور اپنے گھروں میں خصوصی میلاد کی محافل منعقد کر رہے ہیں جبکہ ہمارے محنت کش مزدور تنخواہ اور پینشن نہ ہونے کے سبب جشن عید میلاد النبی ۖ کی خوشیاں منانے سے محروم رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں اور اہل خانہ کا پیٹ بھرنے کے لئے دعوت اسلامی اور سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ اور دیگر فلاحی اداروں سے راشن لیکر اپنی اور اپنے اہل خانہ کی کفالت کر رہے ہے اور ہم بحثیت مسلمان ماہ ربیع الاول کے احترام میںکوئی انتہائی سخت اقدام اٹھانے اور ضلع بھر کا سیوریج سسٹم اور فلٹر پلانٹ بند کرنے سے گریز کر رہے ہیں اگر تنخواہ اور پینشن کی ادائیگی نہ گئی تو ہم سسٹم بند کرنے پر بھی مجبور ہونگے جس کی ذمہ داری بھی ایم ڈی واسا پر عائد ہو گی۔رہنمائوںنے کہا کہ ہمارے محنت کش مزدور غربت بھوک افلاس کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔انہوںنے کہا کہ آج اس پر امن احتجاج میں شریک ہر مزدور ایم ڈی واسا سے پوچھنا چاہتا ہے کہ مالی سال میں ایک ارب 84 کروڑ روپے کی ریکوری کہاں گئی ؟ حالیہ بارش سے قبل ادارے کے اکائونٹ میں 30 کروڑ روپے موجود تھے جن سے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی ممکن تھی وہ رقم کہاں گئی؟ماہانہ کروڑوں روپے کی ہونے والی ریکوری کہاں جا رہی ہے ۔انہوںنے کہا کہ آج کا پر امن احتجاج حکومت سندھ ، وزیر اعلی سندھ، چیف سیکرٹری سندھ ،وزیر بلدیات سندھ اور مقتدر حلقوں سے پر زور مطالبہ کرتا ہے کہ ایچ ڈی اے حیدرآباد اور ( واسا) حیدرآباد کو فی الفور ایک ارب روپے کے فنڈ کے ساتھ ساتھ منظور شدہ فنڈ فی الفور جاری کئے جائے تاکہ ملازمین کو تنخواہ اور پینشن کی ادائیگی ممکن ہو سکے۔
قاسم آباد کے رہائشی ایڈوکیٹ زاہد علی کاندھڑو نے اپنے دیگر وکلا ء کے ہمراہ حیدرآباد پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ حیدرآباد مونسپل کارپوریشن میں 11گریڈ کی ملازمہ رشید بانو 18گریڈ کی پوسٹ پر انچارج انکروچمنٹ سیل مقرر ہے اور چند روز قبل انچارج انکروچمنٹ سیل نے میری دکان واقع آٹو بان روڈ پر کاروائی کر کے میرے ملازم کوہراساں کرکے اور دھمکیاں دے کر جرمانہ کے طور پر 15ہزار روپے وصول کر کے لے گئی جس کی کوئی رسید یا چالان بھی نہیں دیا گیا جس پر میں نے اینٹی کرپشن کورٹ میں درخواست دائر کی جس پرکورٹ نے میری درخواست پر رشیدہ بانو کو 10 ستمبر2024کو پیش ہونے کے نوٹس جاری کئے ہیں ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ انچارج انکروچمنٹ سیل رشیدہ بانو کو میونسپل کمشنر ظہور لکھن اور میئر حیدرآباد کی سرپرستی حاصل ہے اور رشیدہ بانو کی وجہ سے غریب ٹھیلے والے اپنا روز گار بھی نہیں کر سکتے ہیں جبکہ ٹھیلے والوں سے جرمانہ کے طور پر لی گئی رقم کا چالان یا کوئی رسید بھی نہیں دی جا تی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رشیدہ بانو نے انکروچمنٹ ختم کرانے کی آڑ میں شہر میں رشوت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ انہوں نے وزیراعلی سندھ اور صوبائی وزیر بلدیات سے مطالبہ کیا کہ وہ انکروچمنٹ انچارج رشیدہ بانو کے خلاف محکمانہ کاروائی کر کے عہدے سے فوری طور پر ہٹا کر کسی ایماندار آفیسر کو انچارج انکروچمنٹ سیل تعینات کیا جائے۔
حیدرآباد پریس کلب پر مختلف افراد نے اپنے مطالبات کی حمایت میں الگ الگ مظاہرے کئے۔
پنو عاقل کے گوٹھ پیرل عالمانی کے رہائشی ضعیف شخص علی اکبر عالمانی نے اپنی نابینا 14سالہ بیٹی مسماة روشنی اور 10 سالہ بیٹے نائب کے ہمراہ حیدرآباد پریس کلب کے سامنے مختیار کار کی جانب سے سرکاری مالی مدد میں من پسندی اور حکومت کی جانب سے ماہانہ وظیفہ نہ ملنے کے خلاف احتجاج کیا اور اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ میرے پانچ بچے پیدائشی طور پر آنکھوں کی روشنی سے محروم ہیں اور معذور بچوں سمیت اہل خانہ کا گزر سفر کرنے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کی جانب سے بھی سرکاری سطح پر میری کوئی مستقل مالی مدد نہیں کی جا رہی ہے اور کچھ عرصہ قبل حکومت کی جانب سے معذور افراد کی مالی مدد کے لیے امدادی رقم جاری کی گئی تھی جس میں میرے نابینا بچوں کے نام بھی شامل ہیں لیکن متعلقہ مختیار نے کاراپنی من پسند پالیسی کے تحت با اثر اور سفارشی لوگوں کی مدد کر رہا ہے ۔ماتلی کے منگنہار کالونی کے رہائشی راگی مٹھو فقیر نے کالونی کی رہائشی بااثر چوہان برادری کے افراد کے مظالم اور پولیس کے خلاف حیدرآباد پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا اور اس موقع پر الزام عائد کرتے ہوئے بتایا کہ میرے گھر کے سامنے رہنے والے چوہان برادری کے بااثر افراد حاجی چوہان، علی چوہان،صالح چوہان اور دیگر نے میرے اہل خانہ کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے اور مذکورہ با اثرسر افراد اپنے بچوں کے ذریعے میرے گھر میں پتھر پھکو اتے ہیں جس کی وجہ سے کئی بار میرے بچے بھی زخمی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے متعلقہ تھانہ پر رپورٹ بھی درج کرائی گئی ہے ۔
حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد فاروق شیخانی نے آئی پی پیز (انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز) کے معاہدوں پر حکومت کی غفلت پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بار بار کے مطالبات اور احتجاجات کے باوجود آئی پی پیز کے معاہدوں کو منسوخ یا ری شیڈول کرنے میں ناکامی نے ملک بھر کی کاروباری برادری کو سنگین مسائل میں مبتلا کر دیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ہر مہینے بجلی کے بھاری بھرکم بلوں میں شامل مختلف محصولات جیسے کہ بجلی، ٹیلی وژن فیس، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، فاضل ٹیکس، مزید ٹیکس، ریٹیلر سیلز ٹیکس، فیول پرائز ایڈجسٹمنٹ اور دیگر چارجز تاجروں اور عوام کے مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں۔ صدر چیمبر فاروق شیخانی نے کہا کہ آئی پی پیز کی ادائیگیاں نئے مالی سال میں 33% بڑھ کر 2.8 کھرب روپے تک پہنچ چکی ہیں جس سے صارفین پر اضافی بوجھ بڑھ گیا ہے۔ رواں مالی سال میں فی یونٹ بجلی کے چارجز میں تقریبا 5 روپے کا اضافہ ہوا ہے جو کہ 310 ارب روپے کی اضافی لاگت کا باعث ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ صنعتی سرگرمیوں کو مفلوج کر رہا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں صنعتیں بند ہو چکی ہیں۔ اس کے باوجود حکومت آئی پی پیز کو ختم کرنے کے بجائے ان کی مزید مالی معاونت اور ڈالرز میں ادائیگیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ صدر چیمبر فاروق شیخانی نے کہا کہ آئی پی پیز کے غیر منصفانہ معاہدے اور ڈالرز میں ادائیگیاں پاکستانی معیشت پر بھاری بوجھ بن چکی ہیں۔ حتی کہ جن پاور پلانٹس کی سرمایہ کاری مقامی کرنسی میں کی گئی ہے انہیں بھی ڈالر کے ساتھ منسلک ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ نیپرا کے مطابق بجلی کی پیداواری لاگت کا 71% حصہ آئی پی پیز کی ادائیگیوں میں جا رہا ہے جو کہ غیر فعال پاور پلانٹس کو ادا کی جا رہی ہیں۔ صدر چیمبر فاروق شیخانی نے کہا کہ یہ صورتحال پاکستان کے قرضوں کے بوجھ کو برداشت کی حد تک بڑھا چکی ہے اور ملکی سلامتی کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔ پہلے لوگ اپنے گھروں کے بجلی کے بل بھرنے میں ناکام ہو رہے تھے اور اب کاروباری طبقہ بھی اپنے تجارتی بلز ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اِس کے نتیجے میں کاروباری سرگرمیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں اور پورے بزنس سیکٹر کا دائرہ کار درہم برہم ہو چکا ہے۔ توانائی کی قیمتیں یا ٹیرف ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو صنعت کاری کو براہِ راست نقصان پہنچا رہا ہے۔ 45 ہزار میگاواٹ کی گنجائش کے مقابلے میں مین ٹرانسمیشن لائن میں صرف 22 ہزار میگاواٹ بجلی آتی ہے تاہم صارفین کو غیر استعمال شدہ بجلی کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ ہمیں آئی پی پیز کے ساتھ غیر منصفانہ معاہدوں کی وجہ سے کیپیسٹی چارجز میں قیمت کا 56 فیصد ادا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کیپیسی چارجز کی مد میں 2 ٹریلین روپے ادا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ آئی پی پیز مالکان کو بچانا چاہتی ہے یا 250 ملین پاکستانی عوام کو بجلی کے بلوں میں زیادہ ٹیرف کی وجہ سے تقریبا ہزاروں صنعت پہلے ہی بند ہو چکی ہے اور سینکڑوں آپریشن بند کرنے کی تیاری میں ہیں۔ اگر فوری طور پر اقدامات نہ کئے گئے تو قیمتوں کا بڑھتا طوفان اور بلوں کا بوجھ پورے معاشی نظام کو بہا لے جائے گا۔
محنت کشوں کے عظیم قائد عبداللطیف نظامانی کو ایک بار پھر بھاری اکثریت سے بلا مقابلہ صدر منتخب کرلیا گیا ،وہ مسلسل ملک بھر کے واپڈا ملازمین کی پہلی اور آخری پسند کے طور کامیابی حاصل کرتے آرہے ہیں ان کی اس کامیابی سے نہ صرف پاکستان کے محنت کش بالخصوص سندھ کے محنت کشوں میں ایک نئی روح اور جذبہ بیدار ہوا ہے جس کی بدولت اور طاقت سے ملازمین ہر آنے والے خطرے سے نبرآزما ہونے کو تیار ہیں اور میں پورے صوبہ سندھ کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے تمام صوبائی ساتھیوں ریجنل ، زونل ، ڈویژنل ، سب ڈویژن نمائندگان اور کارکنان کی جانب سے عبداللطیف نظامانی کو مرکزی صدر منتخب ہونے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ ان خیالات کا اظہار آل پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین سی بی اے سندھ کے صوبائی سیکریٹری اور نو منتخب مرکزی نائب صدر اقبال احمد خان نے لیبر ھال حیدرآباد میں ایک خصوصی اجلاس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کیا،جس میں یونین کے نومنتخب مرکزی عبداللطیف نظامانی نے بھی خصوصی شرکت کی۔ اس موقع پر یونین کے دیگر رہنما اعظم خان ، محمد حنیف خان، شعبہ خواتین کی چیئرپرسن محترمہ شرکت جہاں ،الادین قائمخانی، نور احمد نظامانی کے علاوہ دیگر نمائندگان بھی موجود تھے۔ اس موقع پر نومنتخب صدر عبداللطیف نظامانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایک بار پھر مرکزی صدر کی بھاری ذمہ داریاں جس خلوص و محبت سے مجھ پر ڈالی گئی ہیں میری کوشش ہوگی کہ میں محنت کشوں کی ترجمانی کرتے ہوئے مزدور کاز کو مزید آگے بڑھائوں جسکے لیے مجھے آپ جیسے مخلص ساتھیوں کی بھی ضرورت ہوگی کیونکہ اس وقت بالعموم ملک کے محنت کشوں اور بالخصوص واپڈا کے محنت کشوں پر کڑا آزمائش کا وقت ہے حکومت قومی ادارے کو IMF کی ایما پر نجکاری کی جانب لے جارہی ہے اس حوالے سے ہمارا کام اور کردار نجکاری کے خلاف اور محنت کشوں کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے میں شبانہ روز مصروف ہے آپ مل کر دعا کریں کہ اللہ رب العزت ہمیں اپنے نیک مقاصد میں کامیاب و کامرانی عطا فرمائے میں مبارکباد پر آپ کا مشکور ہوں اور ساتھ ہی ہمارے صوبائی جنرل سیکریٹری اقبال احمد خان کو مرکزی نائب صدر ہونے پر دلی مبارکباد پیش کرتاہوں انشا اللہ ہم اپنے اتحاد کی طاقت و برکت سے نجکاری کے خلاف ایک بار پھر سرخ رو ہونگے۔
ایم کیو ایم کے حق پرست رکن سندھ اسمبلی انجینئر صابر حسین قائم خانی نے سندھ اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان کو درپیش مسائل کا حل یکجہتی میں ہے لیکن کچھ عناصر اپنی سیاست کے چکر میں ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ جبتک بانیان پاکستان کی اولادیں زندہ ہیں کوئی مائی کا لال پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا انہوں نے صوبوں کے درمیان 1991 کے پانی کی تقسیم کے معاہدے پر پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کے جواب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بارشوں کے وقت ملک میں شور تھا کہ اربن فلڈنگ کا خطرہ ہے لیکن لوکل باڈیز نے بروقت اقدامات نہیں کیے جس سے عوام کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا آج پانی کے ایشو پر بروقت بات کی جارہی ہے امید ہے قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوگی مگر یہاں کہا گیا کہ یہ مسئلہ حل نا ہوا تو پاکستان کو نقصان ہوگا ان سب کو بتاتا ہوں جب تک بانیان پاکستان کی اولاد زندہ ہیں پاکستان کو کچھ نہیں ہونے دینگے ہمیں غور کرنا چاہیے ہم نے سندھ کے پانی بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں یہاں کتنے نئے بیراج بنائے گئے، نہروں کی کیا صورتحال ہے پانی کم ہے سب تسلیم کرتے ہیں اور کبھی سیلاب بھی آ جاتا ہے سندھ میں سیلابی صورتحال ہے پانی سمندر میں ضائع ہونے جارہا ہے لیکن ہم نئے بیراج اور کینال کیوں نہیں بنا سکے ہمارے پاس تھر ہے جہاں پانی کی کمی ہے ہم نے اسے آباد کرنے کے لیے کیا منصوبہ بنایا ہے سندھ حکومت نہری نظام بھی نہیں بنا سکی ہے جب بھی سندھ میں پانی کی کمی کا مسئلہ آیا تو ہم نے احتجاج کیا ریگل چوک پر مظاہرے کئے تھے ہم لاٹھیاں کھا رہے تھے اور یہ حکومت کررہے تھے پیپلز پارٹی سندھ کے لوگوں کو بے وقوف نہیں بناسکتی محکمہ آبپاشی صوبائی حکومت کی نالائقی کی وجہ سے منچھر جھیل کھارے پانی کی جھیل بن گئی زمینیں سمندر برد ہونے کی بات کی جاتی ہے لیکن بتائیں کے اتنے عرصے میں آپ نے زمینوں کو سمندر برد ہونے سے بچانے کے لیے کیا کیا ہے ہم کسی کو سندھ کا حق کھانے نہیں دینگے مگر پیپلز پارٹی کو بھی اپنا حق کھانے نہیں دینگے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت مردم شماری پر سندھ کو درست گنوا نہیں سکی صیح این ایف سی لے نہیں سکے اور آج تک این ایف سی وفاق سے لیکر ضلعوں میں تقسیم نہیں کر سکے ان تمام مسائل پر ایم کیو ایم کو ہی آواز بلند کرنا پڑی پیپلز پارٹی تحریک انصاف سن لے جب تک پاکستان بنانے والوں کی اولادیں ہیں پاکستان کو کچھ نہیں ہوگا تین بیراجوں کے بعد سندھ میں نئے بیراج کیوں نہیں بنائے جاتے گاج ڈیم کا منصوبہ کہاں گیا ہے سندھ حکومت کینالوں کا نظام بہتر نہیں کر رہی ہے ہم نے کموں، شہید پر بھی دھرنے دیئے ہم پورے سندھ کی ترقی چاہتے ہیں کتنی بڑی نالائقی ہے کہ منچھر جھیل کھارے پانی میں تبدیل ہوگئی کینجھر جھیل میں پانی کی گنجائش بڑھائی نہیں گئی پندرہ سال کا ہم کو حساب دیں آپ نے پانی کے مسئلے کے لیئے کیا کیا ہم قومی اسمبلی میں سندھ کے حقوق کے لیئے آواز اٹھائیں گے سندھ حکومت سی سی آئی میں یہ مسئلہ کیوں نہیں اٹھا رہی سندھ کے لیئے ہم مرنے کے لیئے تیار ہیں لیکن پیپلز پارٹی بھی سندھ کی عوام کو اور ہمیں اپنی کرپشن نااہلی نالائقی سے مارنے سے باز رہے ۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حیدرآباد کے امیر مولانا ڈاکٹر عبدالسلام قریشی کے سربراہی میں ایک علماء کرام کے وفد نے ڈپٹی کمشنر حیدرآباد زین العابدین میمن سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور فتہ گوہر شاہی کی غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ کیا اس موقع پر جمعیت علمائاسلام پاکستان ضلع حیدرآباد کے امیر مولانا تاج محمد ناہیوں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حیدرآباد کے سرپرست مولانا ڈاکٹر سیف الرحمن آرائیں مبلغ حیدرآباد ڈویژن مفتی ابرار شریف جمعیت علماء اسلام س حیدرآباد کے جنرل سیکریٹری حافظ ارمان احمد چوھان مفتی طارق قریشی موجود تھے اس موقع پر ڈی سی حیدرآباد نے علماء کرام کے مطالبات سنے اور انہیں فوری حل کرنے کیلئے اقدامات کیے۔
سابقہ مرکزی جنرل سیکریٹریز سندھی ادبی سنگت احمد سولنگی اور یوسف سندھی کی قیادت میں ایک وفد نے جامشورو میں سندھی ادبی بورڈ کے مرکز دفتر کا دورا کیا۔ اس موقع پر انہوں نے چیئرمین سندھی ادبی بورڈ مخدوم سعید الزمان عاطف سے ملاقات کی۔ملاقات کے دوران سندھی ادبی سنگت کی وفد نے چیئرمین سندھی ادبی بورڈ مخدوم سعید الزمان عاطف کی طرف سے کئے گئے کام پر اظہار اطمینان کیا۔اس موقع پر مخدوم سعید الزمان عاطف کا کہنا تھا کے مہنگائی میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں ادبی بورڈ کی گرانٹ کی ایک بڑی رقم ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن پر خرچ ہوجاتی ہے۔اس کے باوجود وقتا فوقتا رسالے اور کتابیں شائع ہوتے رہے ہیں ۔ میری خواہش ہے کہ غیر ملکی ادب کا سندھی میں ترجمہ کر کے شائع کرایا جائے جس سے سندھی زبان و ادب مالا مال ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم سندھ کے ادیبوں کی شاہکار علمی، ادبی اور ادبی تخلیقات کا انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کرکے پوری دنیا تک پہنچانا چاہتے ہیں، تاکہ دنیا کو ہمارے بھرپور سندھی ادب سے روشناص کیا جا سکے۔مخدوم سعید الزمان عاطف کا مزید کہنا تھا کہ سندھی ادبی بورڈ کی غیر مطبوع کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ سے جو قلمی نسخوں کی صورت میں بورڈ میں موجود ہیں، انہیں شائع کروا کر قارئین تک پہنچانا چاہتے ہیں، تاکہ سندھ اور دنیا میں لوگ اس عظیم ادارہ کی خدمات سے مستفیض ہو سکے۔
جامعہ سندھ جامشورو کے اساتذہ متعلقہ فورمز سے انصاف کے منتظر ہیں۔ اس حوالے سے وزیر اعلی سندھ/ سندھ کی یونیورسٹیوں کے چانسلر، پرو چانسلر، وزیر یونیورسٹیز اینڈ بورڈز، سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کو وائس چانسلر، یونیورسٹی کے جانبدارانہ اور جزوی کردار کے بارے میں متعدد خطوط بھیجے گئے ہیں۔ سندھ، جامشورو۔ اس تناظر میں؛ پروفیسر ڈاکٹر محمد حسن آغا، پروفیسر ڈاکٹر شاہد علی شیخ، ڈاکٹر سعید احمد لاکھو، جناب ایاز حیدر مغیری نے میڈیا کو بتایا کہ وہ پہلے ہی جولائی 2024 میں وزیر اعلی سندھ/ چانسلر کو ایک کھلا خط بھیج چکے ہیں۔ سندھ کی یونیورسٹیوں سے انصاف کی درخواست کی۔ اپنے خط میں، انہوں نے کہا کہ موجودہ وائس چانسلر سنڈیکیٹ جیسے مجسمہ ساز اداروں کے قواعد و ضوابط پر عمل نہیں کر رہے ہیں اور اپنے مخالف گروہوں کے عام اساتذہ اور اساتذہ کو مسلسل چن چن کر شکار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خود اساتذہ کے ایک مخصوص گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور جب سے ان کی بطور وائس چانسلر تقرری ہوئی ہے، مسلسل تمام پہلوں سے عام اساتذہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے یا تو یہ سلیکشن بورڈ آف پروفیسرز، ایسوسی ایٹ پروفیسرز، اسسٹنٹ پروفیسرز، ڈینز اور ہیڈز کی تقرری ہے۔ شعبہ جات (HoDs)، یونیورسٹی کے اندر مختلف دیگر اسائنمنٹس وغیرہ۔ جب سے ان کی بطور وائس چانسلر تقرری ہوئی، انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ وہ ایک مخصوص گروپ (جس سے وہ تعلق رکھتے ہیں) کے وائس چانسلر ہیں اور ان کے مفادات کی خدمت کر رہے ہیں لیکن سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دیگر اسٹیک ہولڈرز۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بطور وائس چانسلر ان کے دور میں سندھ یونیورسٹی میں تعلیمی معیار اور تعلیم کا معیار تباہ اور سمجھوتہ کیا گیا۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں لیکن سب سے زیادہ پریشان کن یہ ہے کہ طلبہ کی حاضری پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ زیرو فیصد حاضری والے طلبہ کو بھی سمسٹر کے امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی یونیورسٹی نہیں بلکہ پرائیویٹ کالج ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز (جیسے افسران، طلبا اور ملازمین) بھی مختلف طریقوں سے مشکلات کا شکار ہیں۔ اپنی تعیناتی کے بعد سے انہوں نے ہر قسم کی فیسوں میں 300 سے 400 فیصد تک اضافہ کر دیا اور سندھ کے انتہائی غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے اعلی تعلیم کے دروازے تقریبا بند کر دیے۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگراموں کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے ایسے طلبہ کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔اس نے نہ صرف یونیورسٹی کے اندر کام کرنے والے ماحول کو تباہ کیا بلکہ یونیورسٹی کے اندر موجود درختوں اور باغات کو بھی معاف نہیں کیا۔ گلوبل وارمنگ کے موجودہ دور میں جہاں ہر کوئی گرین ہاس گیسز کو کم کرنے کے لیے درخت لگانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن بدقسمتی سے وی سی نے یونیورسٹی کے اندر درختوں کو کاٹ کر کھجور کے باغات اور جنگلات کے باغات کو تباہ کر دیا۔ آخر میں، انہوں نے وزیر اعلی سندھ/سندھ کی یونیورسٹیوں کے چانسلر سے درخواست کی کہ وہ مداخلت کریں اور قانونی اداروں کی قراردادوں کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کریں اور میرٹ کریسی کو فروغ دینے میں اصول و ضوابط کی بالادستی کو یقینی بنائیں۔