نوشہروفیروز ( رانا ندیم انجم )
نوشہرو فیروز یونین آف جرنلسٹس کے صدر زاہد قائم خانی نے کہا ہے کہ صحافیوں کو صحت، لائف انشورنس اور سکیورٹی جیسے مسائل کے ساتھ خبریں دینے پر مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔انھوں نے یہ بات پریس کلب میں ٹرسٹ فار ڈیموکریٹک ایجوکیشن اینڈ اکاؤنٹبلیٹی (ٹی ڈی ای اے) کے تعاون سے ہونے والی نشست میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت مقتول صحافیوں کے بچوں کی مدد نہیں کرتی۔ “حکومت مقتول صحافیوں کے بچوں کے لیے کوئی ویلفیئر پالیسی لائے جس سے ان کی زندگی آسان ہو سکے۔”انھوں نے مزید کہا “جس کسی کی بھی خبر دی جائے وہ اس صحافی کے خلاف ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر خبر دینے والوں نے صحافت کو بدنام کر کے رکھ دیا ہے اور وہ اپنے آپ کو ورکنگ جرنلسٹ کہتے ہیں۔ پریس کلب میں ہونے والی یہ نشست ٹی ڈی ای اے کی جانب سے صحافیوں کو سیکورٹی اور تحفظ کے حوالے سے درپیش مسائل کو حل کرنے کیلئے ملک میں پریس کلبز اور صحافی یونینز کے تعاون سے سیف میڈیا پروگرام کی ایک کڑی تھی۔ پریس کلب کے جنرل سیکرٹری ساغر سہیل کا کہنا تھا کہ ان کے ضلع میں صحافیوں کو میڈیا ٹریننگ کی اشد ضرورت ہے کیونکہ تربیت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سینئر صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے رہنما ناصر زیدی نے صحافیوں کے تحفظ اور سکیورٹی کے لیے حکومتی اقدامات پر روشنی ڈالی جس میں ٹی ڈی ای اے اور پی ایف یو جے کے کردار کو بھی بیان کیا۔ انھوں نے آزادی صحافت کی راہ میں حائل قانونی و انتظامی قدغنوں کو بھی بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے نمٹنے کیلئے سب کو مل کر مشترکہ لائحہ عمل بھرپور ایڈووکیسی کرنے کی ضرورت ہے۔ نمائندہ ٹی ڈی ای اے سید عبدالاحد نے شرکا کو بتایا کہ سیف میڈیا پروگرام کو صحافیوں کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو بڑھانے کے ساتھ انہیں بااختیار بنانے کے میکنزم کی معاونت اور اجتماعی ایڈووکیسی کو تقویت دینے کیلئے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کے رسپانس فنڈ سے مقامی میڈیا ایسوسی ایشنز، پریس کلب، جرنلسٹ یونین کو سیمینار، ورکشاپس اور کانفرنسز جیسے ایونٹس کیلئے معاونت دی جائے گی۔ٹی ڈی ای اے ملک کے مختلف اضلاع میں پریس کلبز کے عہدیداروں اور صحافیوں کے ساتھ مشاورتی عمل کے ذریعے صحافیوں اور میڈیا کو درپیش مشکلات کے حل کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع، بلوچستان، اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں ساٹھ سے زائد پریس کلبز کے ساتھ ایسے اجلاس اور نشست منعقد ہو رہی ہیں۔