جمہوریت کے نام پر ایک دھوکا اور فراڈ ہے دو تہائی اکثریت کے باوجود پارلیمانی اسمبلیاں ائین میں رد و بدل کا اختیار نہیں رکھتیں۔
سی این آئی کے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار بانی و چیئرمین جناح کا سفید انقلاب Jinnah’s White Collar Revolution ڈاکٹر صادق علی سید نے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے کہ موجودہ پارلیمانی نظام حقیقی جمہوری نظام کے مکمل منافی ہے اور اس میں عوام کی دو تہائی اکثریت کی رائے شامل نہ ہونے کی بنا پر یہ اسمبلیاں آئین میں ردوبدل کا حق نہیں رکھتیں پاکستان کی آبادی 24 کروڑ ہے اور اس کے نصف سے بھی کم تعداد میں ووٹر رجسٹرڈ ہیں اس نصف تعداد کے ووٹرز کی مزید نصف تعداد سے بھی کم لوگ کسی بھی الیکشن میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں جبکہ ایک کروڑ سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز بیرون ملک مقیم ہونے کی وجہ سے اس حق سے بھی محروم رکھے جاتے ہیں کاسٹ شدہ ووٹوں میں سے بھی کسی بھی سیاسی جماعت کو کبھی بھی ڈیڑھ سے دو کروڑ سے زائد ووٹ حاصل نہیں ہوئے اور اتنی قلیل تعداد کے باوجود پاکستان کی اقتدار کے منصب پہ فائز ہونے والی سیاسی جماعتیں اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی 24 کروڑ عوام کی نمائندگی کے دعوے کرتے ہیں جو کہ سراسر جھوٹ اور گمراہی کا شاخسانہ ہے پاکستان میں کوئی بھی سیاسی لیڈر ایسا نہیں جو پورے پاکستان سے بیک وقت 51 فیصد ووٹ حاصل کر سکیں تمام تر سیاسی جماعتیں الگ الگ صوبے کی نمائندہ جماعتیں ہیں، اور اپنی ذاتی بادشاہت قائم رکھتے ہوئے موروثی جماعتیں بن چکی ہیں۔ اور صوبے کو اپنی ریاست اور جاگیر سمجھتے ہیں۔ لیکن اجتماعی طور پر کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی بھی سرپرست یا رہنما جمہوریت کی حقیقی روح کے مطابق نصف سے زائد ووٹ حاصل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
یہی وہ بنیادی نقطہ ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاتھ سے لکھی ہوئی 10 جولائی 1947 کی تحریر جس میں انہوں نے واضح الفاظ میں صدارتی نظام کے نفاذ اور پارلیمانی نظام کے خطرات سے آگاہ کیا تھا کو 75 سالوں تک پاکستان کی عوام سے پوشیدہ رکھا گیا 75 سالوں تک کسی بھی شخص، بیوروکریٹ، سیاسی جماعت، صحافی، تجزیہ کار، محقق، وکیل یا بیرسٹر نے اسے ظاہر کیوں نہیں کیا؟ اسے دریافت کرنے کے بعد ہی میں نے سپریم کورٹ میں قائد اعظم کی وصیت پر عملدرآمد کے لیے پٹیشن 149/2022 دائر کی جسےابھی تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا، کیونکہ اس کی سنوائی کا مطلب ہے موجودہ پارلیمانی نظام کا آئین و قانون کے مطابق مکمل خاتمہ، اور پاکستان میں صدارتی نظام کا نفاذ ہی کرنا پڑے گا۔
پارلیمانی نظام حقیقی جمہوری نظام اس لیے نہیں ہے اس میں ایک حلقے سے کثیر تعداد میں ووٹ لینے والا بھی ایک اسمبلی نشست حاصل کرتا ہے اور چھوٹے حلقے سے قلیل تعداد میں ووٹ لینے والا ممبر بھی ایک ہی نشست حاصل کرتا ہے۔ جب پانچ لاکھ ووٹرز کا اور ایک لاکھ ووٹرز کا نمائندہ بھی اسمبلی کی کسی قرارداد یا قانون سازی کے عمل میں ایک ہی ووٹ کا حقدار ہوتا ہے تو اس میں ووٹرز کی متناسب نمائندگی کیسے شمار کی جا سکتی ہے؟ اور دو تہائی اسمبلی کے ارکان دو تہائی عوامی نمائیندگی کے حامل کیسے بن سکتے ہیں اور آئین میں ردوبدل یا ترامیم کے حقدار کیسے بن سکتے ہیں؟ اور ایسے تمام قوانین جو قراداد مقاصد، قرآن مجید کے احکامات اور انسانی حقوقِ سے متصادم ہیں فوری طور پر منسوخ کرنا ہوں گے۔ پارلیمانی نظام میں بھی پارلیمنٹ قانون یا آئین میں ردوبدل یا ترمیم کی تجاویز دینے کی ہی مجاز ہے نافذ یا منسوخ کرنے کے احکامات صرف عدلیہ ہی جاری کر سکتی یے۔
جبکہ صدارتی نظام میں پورا پاکستان ایک حلقہ ہوتا ہے اور تمام امیدوار بشمول سینیٹ اراکین ملک بھر سے اجتماعی ووٹ لے کر ہی منتخب ہو سکتے ہیں۔ اور صدر اپنی کابینہ کے ہر شعبہ کے لیے ملک کے بہترین تعلیم یافتہ اور باصلاحیت افراد پر مشتمل لوگوں کو چنتا ہے۔ صدارتی نظام ہی ملک کے تمام مسائل کا حل ہے اور یہی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وصیت اور خواہش بھی تھی۔
پاکستان میں نافذ ہونے والے صدارتی نظام جمہوری نظام کے منافی تھے، اسی لیے آمرانہ صدارتی نظام کہلاتے ہیں۔