احمد خان لغاری
وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے ایک روزہ دورہ ڈیرہ غازیخان مکمل کیا، راجن پور ضلع کا پروگرام بھی تھا لیکن مختصر کرکے ڈیرہ غازیخان تک محدود رکھا گیا۔ ہمیشہ کی طرح اعلی شخصیات کے دورے جہاں ہوتے ہیں وہاں پر اچھے اور برے اثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اچھا پہلو یہ تھا کہ جہاں جہاں سے وزیر اعلیٰ پنجا ب نے گزرنا تھا ان مقامات اور اردگرد کا ماحول بہتر بنا دیا گیا چاہے وہ سڑک ہو، سیوریج ہو نزدیکی علاقوں کے نصیب جاگ جاتے ہیں۔ آج بھی ڈیرہ غازیخان کے اکثر علاقے موجودہ اور گذشتہ بارشوں سے بہت متاثر ہوئے ہیں، گلیوں میں پانی اور محلے تالاب کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ شہر کے اندر کے حالات کا یہ عالم ہے کہ خراب سیوریج لائنیں ایک متعفن ماحول کا منظرنامہ پیش کرتی ہیں اور ایسے میں میں شہریوں کا کوئی بھی پر سان حال نہیں ہے۔
بڑ ے اثرات کا عالم یہ تھا کہ تمام علاقہ جات کی اکثریت شاہراہیں اور گلیاں سکیورٹی کی وجہ سے بہت پہلے بند کر دی گئی تھیں۔ شہریوں کو شدید گرمی میں گھنٹوں روکا گیا، ایمولینس گاڑیوں کو بھی گزرنے کا راستہ نہ ملا، پولیس ملازمین تو خیر اپنی ڈیوٹی کر رہے تھے لیکن بحیثیت انسان وہ بھی شدید گرمی میں وزیر اعلی کی سیکیورٹی کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ڈیرہ غازی خان کی عوام کی بدنصیبی کہہ لیں کہ گذشتہ دور حکومت میں اسی زمین کا ایک بیٹا سردار عثمان بزدار آئے روز جب ڈی جی خان دورہ پر آتا تویہی صورت حال ہوتی۔ موصوف کا گھر ڈیرہ غازی خان شہر میں ہونے کی وجہ سے دوتین روزہ دورہ پر ان کے قیام پر پورا شہر بلکہ پورے ضلع کے لوگ عجیب کیفیت میں مبتلا دکھائی دیتے۔ یہاں موازنہ کرنا مقصود ہرگز نہیں کیونکہ اگر بُزدار زیادہ دورے کرتا تھا تو اس نے ضلع کیلئے کافی کام بھی کیا ہے جیسا کہ کارڈیالوجی ہسپتال ہی ضلع ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور بلوچستان سے والے لوگوں کیلئے بُزدار حکومت کا بڑا انعام ہے۔
وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے اپنے اس دورہ میں ضلع راجن پور، ڈیرہ غازیخان اور مظفر گڑھ کے طلبا بچے اور بچیاں جو صحت کی سہولیات سے محروم ہیں ایسے بچوں کیلئے نیوٹریشن پروگرام کا آغاز کیا اور دودھ کے پیکٹ بچوں کو دیے اور بچوں سے خطاب کیا۔ غریب لوگوں کومکان بنانے کیلئے چھت مہیا کرنے کے لیے بذریعہ قرعہ اندازی قرضے جاری کرنے کا پروگرام بھی شروع کیا اسی طرح مریم نواز صاحبہ نے ماہانہ بنیادوں پر قرض بمعہ سود واپسی کا فلاحی پروگرام بھی جاری کیا لیکن اس پروگرام پر عمل کرنا غریب کیلئے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ڈیرہ غازیخان کے پروگرام کے آخری حصے میں لاہور واپسی کے دوران سخی سرور روڈ پر “پیالہ چائے ڈھابہ” پر رک کروہاں موجود شہریوں کو خوشگوار سر پرائز دیا۔ انہیں چائے پیش کی گئی اور وہاں پر موجود لوگوں نے وزیر اعلی کو بجلی کے بلوں میں چودہ روپے فی یونٹ رعایت عام پر شکرکہ ادا کیا۔
مریم نواز صاحبہ کے اس دورہ ڈیرہ غازیخان کے موقع پر نہ تو کسی بڑے منصوبے کا اعلان کیا گیا اور نہ ہی اس دورے کے دوران کسی علاقے کے سردار نے اُن سے کسی مطالبے کی جرأت کی کیونکہ ان کے نزدیک ڈیرہ غازیخان میں کسی ترقیاتی کام کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ حالانکہ ڈیرہ غازیخان اسوقت حالیہ سیلاب اور رودکوہیوں میں گھرا ہوا ہے، رودکوہیوں نے دیہاتی علاقوں میں ایک قیامت بر پا کر رکھی ہے۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ سال 2022 ء کے سیلاب کے بعد رودکوہیوں جن میں شہر کے قریب سے گذرنے والی وڈور ندی کا پانی محفوظ طریقے سے دریائے سند ھ میں گرایا جائے گا لیکن ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ڈیرہ غازیخان کے ایئر پورٹ کو بحال کئے جانے کا مطالبہ بھی بہت پرانا تھا۔
ڈیرہ غازیخان راجن پور اور بلوچستان سے جو لوگ دوبئی یا سعودی عرب میں کا م کرتے ہیں انہیں ہوائی سفر کے لیئے ملتان جانا پڑتا ہے حالانکہ ڈیرہ غازیخان ایئر پورٹ ماضی میں کامیاب ائرپورٹ سمجھا جاتا تھا اور دبئی کی فلائٹس یہاں سے جاتی تھیں۔ اسی طرح اب ڈیرہ غازیخان سے گزرنے والی ریلوے لائن پر کوئی ٹرین نہیں گزرتی اور عام آدمی مہنگے کرائے بھر کے کراچی لاہور اور کوئٹہ کا سفر کرتے ہیں اور اب تو ریلوے اسٹیشن اور ملازمین کے رہائشی کوارٹرز پر ریلوے ملازمین کے تعان سے قبضہ مافیا کا راج ہے۔ شہر ڈیرہ غازیخان اور قریبی کالونیوں کا سیوریج سسٹم ناکام ہوچکا ہے اور شہر ایک دلدل پر قائم ہے جس سے کسی وقت بھی کوئی بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔ اسی طرح غازی گھاٹ پل پر کام کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے جس کی وجہ سے مسافر گھنٹوں اذیت کا شکار رہتے ہیں۔ ڈیرہ غازیخان کے شمالی اور جنوبی بائی پاس بنائے جانے کا بھی کسی نے سوچا تک نہیں۔ اور تو اور شہر کی نئی تعمیر شدہ سڑکیں تالاب کا منظر پیش کررہی ہیں۔
آدھے درجن سے زائد ایم این اے اور ایم پی اے لغاری سرداران ہیں اور اس میں کھوسہ سرداران کا بھی حصہ شامل ہے۔ یہ لوگ اس تقریب میں بھی مریم نواز شریف کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے رہے اور نہیں کرسیاں بھی نہ دی گئیں اسی طرح چائے کے ڈھابے پر بھی ہمارے سردار صاحبان نے وزیر اعلی صاحبہ کو گھیر رکھا تھا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ وزیر اعلی نے نہ تو کسی بڑے پراجیکٹ کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی کسی تقریب میں کسی سردار نے کوئی ایسی تجویز دی۔ عوام کا ایم پی اے اور ایم این اے صاحبان سے کچھ مانگنے کا حوصلہ اور جرأت نہیں ہے کیونکہ ہمارے سیاسی نمائندگان کو بھی فارم 47 کی وجہ سے اپنے قد کا ٹھ کا علم ہے اور افسر شاہی کو بھی گذشتہ عام انتخابات میں جو کچھ ہوا بخوبی علم ہے۔
علاقے کے سردار شروع سے ہی قائدین کے پیچھے کھڑے اور قدموں میں بیٹھنے کے عادی ہیں اور یہی ان کا سدا معمول رہا ہے۔ دورہ کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ مسلم لیگ ن میں اختلافات کم کرنے کے لیئے سابق ایم پی اے سید عبداعلیم شاہ کو اور اسکے ساتھیوں کو نظر انداز کردیا گیا جو نظریاتی مسلم لیگی کے لیے افسوسناک ہے اسی طرح کئی نظریاتی ن لیگی رہنماؤں کو نظر انداز کرنے سے یہ واضح ہو گیا کہ مسلم لیگ ن اب چوٹی کے سرداروں تک محدود ہوگئی ہے۔مسلم لیگی نظریاتی کارکنوں اور ووٹر زسے بھی محروم ہو گئ ہے۔مجموعی طور پر اگر کہا جائے تو وزیر اعلی کا دورہ لا حاصل اور ایک ناکام دورہ تھا جس میں عوام کو سوائے تکلیف کے کُچھ ہاتھ نہیں آیا اور اس کے ساتھ مُسلم لیگ نون کو بھی نقصان ہوا۔