18 مئی 2001 ء عالم اسلام کی ایک با اثر آواز کو خاموش کر دیا گیا،
شہر کراچی میں گولیوں کی گن گرج کوئی نئی بات نہ تھی مگر شہر کراچی سعید آباد کے علاقہ میں خطبہ جمعہ کے لیے باوضو ہو کر جانے والے ایک مرد قلندر مجاہد اسلام بانی و قائد سنی تحریک امیر شہدائے اہل سنت محمد سلیم قادری شہید رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو دہشت گردوں نے گھات لگا کر گولیوں سے چھلنی کر دیا،
ویسے تو دنیا کے جس خطے میں ہم رہ رہے ہیں یہ تاریخ میں مختلف جغرافیائی تقاسیم کا حصہ رہا ہے کبھی یہ خراسان کا حصہ رہا اور کبھی یہ ہند کا حصہ کہلایا آج کے دور میں اسے پاکستان کے نام سے اسلامی جمہوری ریاست کہا جاتا ہے اپنی جغرافیائی اہمیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوہ ہند سے متعلق احادیث مبارکہ کی وجہ سے یہ خطہ ہمیشہ اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں کا محور رہا ہے ان سازشوں میں خطے میں موجود اسلامی ممالک بالخصوص افغانستان، ایران اور پاکستان اور بالعموم عراق ترکیہ اور عرب ممالک کو غیر مستحکم کرنا اور ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا اور ان کے اندر فرقہ بندی کو فروغ دینا اور دہشت گردی کو پروان چڑھانا شامل ہے، اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو 1980 اور 90 کی دہائیاں فرقہ واریت کو ہوا دینے والی سازشوں کا عروج تھا، سابقہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن آن دی ریکارڈ ایک مخصوص فرقے کو فنڈنگ کا اقرار کر چکی ہے،
انہی سازشوں کے نتیجے میں اس دور میں فرقہ وارانہ دہشت گردی اور مساجد و مزارات پر قبضے کے رجحان کو تقویت ملی اسلحہ کے زور پر اپنے عقائد کی ترویج اور مساجد پر قبضے کواتنا فروغ ملا کے اس دور میں انتظامیہ اور عدالتیں ان فرقہ پرستوں کے خلاف بے بس نظر آئیں ان نا مساعد حالات میں وطن عزیز کی سب سے بڑی اور پرامن اکثریت سواد اعظم اہل سنت کو ایسی قیادت کی اشد ضرورت تھی جو ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ان کی آواز بن سکے،
اللہ رب العزت کے فضل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر رحمت سے روس البلاد کراچی کا ایک نوجوان اس مشن کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور پاکستان کی غالب مظلوم اکثریت کی اواز بن گیا یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے کونے کونے سے نوجوان اس جوان کی اواز پر لبیک کہتے نظر ائے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پیغام ملک کے طول و عرض میں پھیل گیا
محمد سلیم قادری کے نام سے شہرت حاصل کرنے والے محمد سلیم قریشی نے 1960 میں محمد ابراہیم قریشی کے گھر جنم لیا 1968 میں والدین کے ساتھ بلدیہ ٹاؤن کے علاقے میں رہائش اختیار کی مقامی مدرسہ میں قران پاک کی تعلیم اور بلدیہ ٹاؤن میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کی سکول اور کالج سے ہی دین سے بے پناہ لگاؤ تھا اپ نے سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت اختیار کی سلیم قادری نے کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن سے فکر رضا کا پرچم بلند کرنے کا فیصلہ کیا اور ہم خیال نوجوانوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا درجن بھر ہم خیال ساتھیوں کے ہمراہ 1990 میں 27 رمضان المبارک لیلۃ القدر کی مقدس رات میں سنی تحریک کے نام سے تحریک کا اغاز کیا اور سواد اعظم اہل سنت کے حقوق کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا
سارا کراچی اس بات کا گواہ ہے کہ جب ٹوٹی پھوٹی 50 موٹر سائیکل پر بیٹھ کر یہ جو نوجوان جس کا عزم پہاڑوں سے بھی بلند تھا بلدیہ ٹاؤن جیسے پسماندہ علاقے سے نکلا تو پورا کراچی اس نوجوان کی اواز بن گیا فرقہ واریت کے ظلم کی چکی میں پسی عوام کے لیے سلیم قادری ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوا وسائل اور کسی قسم کی سرپرستی نہ ہونے کے باوجود اپنے اخلاص اور جوان جذبوں کی بدولت سلیم قادری کی اواز دن بدن توانا سے توانا ہوتی چلی گئی چند ماہ کے اندر ہی کراچی سے خیبر تک ایک ہی شخص مذہبی حلقوں کی زبانوں پر تھا اور وہ تھا محمد سلیم قادری کراچی والا سلیم قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اسلام دشمن قوتوں اور ان کے فرقہ پرست آلہ کاروں سے ٹکر لے لی تھی جو اپنے آقاؤں کی سرپرستی اور ان کے فراہم کردہ وسائل کی وجہ سے ریاست سے بھی زیادہ طاقتور بن چکے تھے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ریاست ادارے اور ملک کی اشرافیہ جو دن رات فرقہ واریت کے خلاف لیکچر دیتے نظر اتے تھے اور فرقہ پرست دہشت گردوں کے سامنے بے بس ہو چکے تھے وہ سلیم قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے نظریہ کو سمجھنے سے قاصر نظر ائے حقیقت یہ ہے کہ سلیم قادری رحمت اللہ علیہ نے حقوق اہل سنت کی بات کر کے حقدار کو اس کا حق دینے کی بات کی جو شریعت مطہرہ اور ائین پاکستان کے عین مطابق بات ہے لیکن ریاست اور اشرافیہ نے ائین اور قانون کا ساتھ دینے کی بجائے حسب روایت طاقتور کے سامنے سجدہ ریز ہونے کو پسند کیا
سلیم قادری رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت کا ہر پہلو شاندار اور قابل تقلید ہے اگر شریعت مطہرہ پر عمل کی بات کریں تو سلیم قادری عمل کے لحاظ سے شاندار کردار کے مالک تھے اگر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کریں تو محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں جان قربان کرنے کا جذبہ سلیم قادری رحمۃ اللہ علیہ کے کارکنوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے تو خود سلیم قادری رحمۃ اللہ علیہ کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم کیا ہوگا قیادت کی بات کریں تو سلیم قادری اپنی ذات میں ایک مکمل تحریک تھے اس سے بڑھ کر قائدانہ صلاحیت کا کیا اظہار ہوگا کہ بغیر وسائل اور سرپرستی کے چند ماہ میں اپنی تحریک کا پیغام ملک کے کونے کونے میں پہنچا دیا اور چند ماہ میں ہی سنی تحریک ملک کی ایک بڑی مذہبی جماعت کے طور پر ابھر کرسامنے ائی اپ کی ذات کی بات کریں تو عاجزی سخاوت اور دلیری ایسی کہ دشمن بھی اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتے علماء کا ادب ایسا کہ اج بھی اپ سے ملاقات کرنے والے علماء اپ کو کلمات خیر سے نوازتے ہیں قانون پسندی ایسی کہ ریاستی ادارے اپ کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خائف ہونے کے باوجود اپ کی تعریف کرنے پر مجبور نظر اتے تھے۔
اج بھی سنی تحریک کے جیالے اپنے قائد کے عظیم مشن کی تکمیل کے لیے سرگرم عمل ہیں اور قائد سنی تحریک محمد سلیم قادری شہید رحمۃ اللہ علیہ کے اسی عظیم جذبے کے ساتھ وطن عزیز کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔
محمد شاداب رضا نقشبندی