25 کروڑ عوام کی بقا
تحریر طاہراشرف
جب سے پاکستان بنا ہے عوام نے سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کی بقا کے لیے ہزاروں قربانیاں دی ہیں لیکن اب 25 کروڑ عوام کی بقا کے لیے سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو قربانی دینا پڑے گی لیکن یہ سیاستدان ملک کو آہستہ آہستہ کس طرف لے کر جا رہے ہیں اب اس عوام کو سوچنا ہو گا فیصلہ کرنا ہوگا اور عوام کو اپنی اور اس ملک کی بقا کے لیے درست سمت کا فیصلہ کرنا ہو گا نہیں تو ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں رہے گا یہ ملک ہماری پہچان ہے اس ملک کے لیے عوام پاک فوج کا ساتھ دیں اور پیاے پاکستان کو خوشحالی کی طرف لے کر جائیں تاکہ پاکستان ترقی کرے۔عوام بجا طور پر یہ سوال کرتے نظر آتےہیں کہ سیاست دان اپنی نااہلی نالائقی اور باہمی چپقلش کی سزا کب تک عوام کو دیتے رہیں گےسیاست دانوں کی لڑائی میں وہ قرض بھی چُکا ر ہے ہیں جوواجب بھی نہ تھے اُن پر۔ چند برسوں میں عوام کے بہت زیادہ تکلیف اٹھانےکے باوجود بنیادی اقتصادی چیلنجز دوبارہ اور پہلے سے زیادہ سنگین ہوکر نمودار ہوچکے ہیں۔ پھر یہ کہ اس وقت اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں ملکی سیاسی اور بیرونی عوامل کیسا برتاؤ کریں گے۔کاش ہمارے حکمران پاکستانیوں کے چہرے کبھی غور سے دیکھیں جن کے چہروں پر حسرت نمایاں نظر آتی ہے اور آنکھوں میں آنے والے دنوں کے وسوسے اور خدشات سر اٹھاتے ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ کے لیے خطرے کی گھنٹی یہ ہے کہ اب ملک کے ستّر فیصد عوام یہ مطالبہ کرنے لگے ہیں کہ ٹیکس کے پیسوں پر حکومتی سیاسی اور سرکاری اشرافیہ کی عیاشیوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ پاکستان کی ہر نوع کی سرکاری اشرافیہ کے پُر آسائش طرز زندگی پر پاکستان کے خزانے سےاربوں روپے خرچ ہوتے ہیں پھر بھی عوام بھوکی ننگی اور زندگی سے تنگ؟پاکستان کے عوام بڑے معصوم ہیں، کبھی کسی کو رہنما بنا کر اپنی زندگی کا اہم حصہ یا اس حد تک کہ جان بھی اس رہنما کی جذباتی تقریروں پر قربان کر دیتے ہیں تو کبھی بنا سوچے سمجھے کسی سیاست دان کی باتوں میں آ کر ملک کے اہم اداروں پر الزام تراشیاں کر کے اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال کر کے اپنا مستقبل برباد کر لیتے ہیں۔محنت کش طبقہ آج جس اذیت اور تکلیف سے گزر رہا ہے اس کا اندازہ لگانا بھی حکمرانوں کے لیے ناممکن ہے۔ ان کی زندگیاں انتہائی عیش اور آرام سے بسر ہو رہی ہیں۔ ہر گزرتا دن ان کے لیے دولت کے نئے انبار لے کر آتا ہے اور وہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ عوام کو دال روٹی کے چکر میں ڈالے رکھو، مخالفین کو مقدمات میں الجھائے رکھو اور حکومت کرو۔ موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو یہی موجودہ جمہوری حکومتوں کا فارمولہ نظر آتا ہے۔ عوام کو نعروں اور وعدوں میں پھنسا کر ان سے ووٹ نکلوا لو اور پھر ان کو بیکار چیز سمجھ کر کباڑ خانے میں پھینک دو اور اگر پھر ضرورت پڑے تو یہی طریقہ پھر آزمائو۔ مسائل، غربت ،مہنگائی، ناانصافی اور بیروزگاری کے مارے لوگ پھر جھانسے میں آجائیں گے
ہم نے اپنے دین کے ساتھ منافقت کی ہوئی ہے ایک طرف اسلام کا لبادہ اُڑھتے ہیں، آئی ایم ایف اپنی ہر قسط میں ہم سے گیارہ گنا سوداضافے کے ساتھ وصولی کرتی ہے اور یہ اِس ظالم آئی ایم ایف کا پہلا مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ چیزیں زیادہ مہنگی کی جائے جن کا تعلق براہ راست عوام سے ہے چونکہ عوام ‘‘سے مراد عام آدمی یعنی مزدور طبقہ شامل ہوتا ہے اس لیے آئی ایم ایف اپنی کلاس اشرافیہ کا خیال رکھتے ہوئے براہ راست عوام کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے اور دوسرا اُن کو پتہ ہے کہ عوام ہی دن رات محنت مزدوری کر کے اِس ملک کے زر مبادلہ میں اضافہ کرتے ہیں گیس ، بجلی اور پیٹرول عوام ہی نے ہر حال میں استعمال کرنا ہوتا ہے ایک شہر سے دوسرے شہر محنت مزدوری کرنے کے لیے عوام ہی نے عام ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کرنا ہوتا ہے اس لیے تیل کی قیمتوں میں جتنا زیادہ اضافہ ہو سکے کر دیا جائے،حکمرانوں کی غلط معاشی پالیسوں کی وجہ سے عوام چیخ رہے ہیں اُن کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں اور آپ درجنوں ایکڑ محلات میں سینکڑوں ملازمین کی یس سر میں مست ہیں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ لوگ ذرا عوام کی زبان بن سکتے اور عوام کو کوئی سہولت دے سکتے عوام ہمیشہ ہی قربانی کا بکرا بنی اور سیاستدان اپنی اپنی عیاشیوں میں مگن اور سکون سے زندگی کو انجوائے کرتے ہیں۔اقتدار کے بھوکے ان بھیڑیوں کا تعلق چاہے کسی بھی پارٹی سے ہو ایک دوسرے کے حریف ہو یا حلیف سب ایک ہی تصویر کے دو رخ دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے لٹیروں کے لیے عوام اپنا گھر بار پتہ نہیں کیا کچھ دائو پر لگا دیتے ہیں لیکن نتیجہ کچھ اور ہی نکلتا ہے۔ اقتدار ملنے کے بعد اسی عوام کو جھوٹے دلاسے اور سبز باغ دکھائے جاتےہیں کہ عوام پھر سے اعتبار کرتے ہیں اور نتیجہ پھو وہی کہ ملک دیوالیہ ہو رہا ہے عوام کو تھوڑی قربانی دینا پڑے گی وغیرہ وغیرہ۔آٹا، چینی ، چاول، دالیں اور گھی کی تو بات ہی کیا پیاز ٹماٹر خریدنے کی سکت عام آدمی میں نہیں رہی ۔ عوام تو دیوالیہ ہو گئے ہیں جب تک نظام تبدیل نہیں ہو گا عوام کے مصائب میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا اور یہ نام نہاد سیاستدان اس عوام کو بےبس مجبور اور لاوارث لاشوں کی نوچتے رہیں گے اور تماشائی تماشا دیکھتے رہیں گے ۔
⭕⭕⭕⭕⭕⭕