خاموش سپاہی: دہشتگردی اور مالیاتی نیٹ ورکس کے خلاف IB کا کردار خاموش آپریشنز، خفیہ کامیابیاں، اور ریاست کے اندرونی استحکام کی جنگ — یہ ہے پاکستان کی انٹیلیجنس بیورو کی کہانی۔
عنایت اللہ خان (روزنامہ جنگ کراچی)
پاکستان کے حالات اس وقت کسی بھی ریاستی ڈھانچے کے لیے ایک بڑے امتحان سے کم نہیں۔ ایک طرف عالمی طاقتوں کے مفادات اور خطے میں جاری پراکسی جنگیں، دوسری طرف اندرونی سطح پر بڑھتی ہوئی دہشتگردی، فرقہ واریت، منی لانڈرنگ، کرپشن اور جرائم—یہ سب مل کر پاکستان کو ایک غیر روایتی جنگ کے بیچ لا کھڑا کرتے ہیں۔ ایسے میں سول انٹیلیجنس ایجنسی، انٹیلیجنس بیورو (IB) کا کردار کلیدی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ یہ ادارہ عوامی توجہ سے دور رہتے ہوئے ایسے محاذوں پر لڑ رہا ہے جہاں ریاست کا وجود براہِ راست داؤ پر لگا ہوا ہے۔داخلی استحکام کی جنگ
پاکستان کی انٹیلیجنس بیورو کی پہلی ترجیح ہمیشہ داخلی استحکام رہی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت نے جہاں عوام کو اضطراب میں مبتلا کیا، وہیں دہشتگرد گروہوں نے انہی مسائل کو بنیاد بنا کر نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی۔ IB کا سب سے اہم کام یہی ہے کہ بروقت ان محرکات کی نشاندہی کرے اور انہیں جڑ پکڑنے سے پہلے ختم کر دے۔دہشتگرد تنظیموں اور فرقہ وارانہ گروہوں پر کریک ڈاؤن
پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں IB کا کردار اگرچہ زیادہ تر پسِ پردہ رہا، لیکن کئی کامیابیاں اس کی محنت کا نتیجہ ہیں۔
کراچی آپریشن (2013–2016) میں ٹارگٹ کلرز اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں میں IB نے حساس معلومات فراہم کیں، جس کے نتیجے میں سیکڑوں دہشتگرد اور عسکریت پسند گرفتار ہوئے۔
پنجاب میں لشکر جھنگوی اور جیش محمد جیسے فرقہ وارانہ نیٹ ورکس کی نگرانی اور ان کے مالی معاونین کی نشاندہی IB کے خفیہ نیٹ ورک کی کامیابی تھی۔
بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کے کئی خفیہ ٹھکانے اور فنڈنگ چینلز IB کی رپورٹس کی بنیاد پر پکڑے گئے۔
یہ وہ پہلو ہیں جو عام طور پر خبروں کی زینت نہیں بنتے، مگر ان کے بغیر ریاست کا چلنا ممکن نہ ہوتا۔مالیاتی دہشتگردی کے خلاف کامیابیاں
دہشتگرد تنظیمیں صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ رقوم کے ذریعے طاقت حاصل کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ IB نے حوالہ ہنڈی نیٹ ورکس، جعلی کرنسی اور منی لانڈرنگ کے راستوں پر بڑے کریک ڈاؤن کیے۔
2015 میں کراچی اور لاہور میں حوالہ ہنڈی کے بڑے مراکز بے نقاب ہوئے، جنہیں دہشتگرد تنظیمیں رقوم منتقل کرنے کے لیے استعمال کر رہی تھیں۔
جعلی کرنسی کے متعدد سیل IB اور FIA کے مشترکہ آپریشنز سے تباہ کیے گئے، جس سے دہشتگردوں کی مالی رسد کمزور ہوئی۔
یہ کارروائیاں صرف دہشتگردی کے خلاف ہی نہیں بلکہ ملکی معیشت کو سہارا دینے میں بھی اہم کردار رکھتی ہیں۔
ڈیجیٹل میدان میں نئی جنگ
آج کی جنگ صرف بارود اور بندوق تک محدود نہیں رہی۔ آن لائن ریڈیکلائزیشن، پروپیگنڈا مہمات، اور بیرونی ڈس انفارمیشن نے ریاستوں کے لیے نئے خطرات پیدا کیے ہیں۔ IB نے حالیہ برسوں میں سائبر انٹیلیجنس اور سوشل میڈیا مانیٹرنگ کے ذریعے کئی آن لائن شدت پسند نیٹ ورکس کو بے نقاب کیا۔ کچھ رپورٹس کے مطابق، کئی خودکش حملے بروقت اسی ڈیجیٹل نگرانی کے ذریعے ناکام بنائے گئے۔مثبت پہلو اور خاموش کامیابیاں
اکثر یہ تاثر ملتا ہے کہ IB کو صرف سیاسی جماعتوں کی نگرانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ماضی میں اس پر سوالات ضرور اٹھے، مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ IB نے اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی کے ذریعے دہشتگردی کے کئی بڑے خطرات کو ختم کیا۔
2017 میں لاہور میں ایک بڑا خودکش حملہ IB کی بروقت انٹیلیجنس رپورٹنگ کی وجہ سے ناکام ہوا۔
2020 میں کراچی اسٹاک ایکسچینج پر ہونے والے حملے کے ماسٹر مائنڈز کو IB کے فراہم کردہ ڈیٹا کی مدد سے ٹریس کیا گیا۔
یہ وہ خاموش کامیابیاں ہیں جنہیں عوامی سطح پر زیادہ اجاگر نہیں کیا جاتا مگر ان کے اثرات پورے ملک کی سلامتی پر براہِ راست مرتب ہوتے ہیں۔بھارت کی IB کے ساتھ موازنہ
بھارت کی انٹیلیجنس بیورو کو نسبتاً زیادہ وسائل اور مضبوط قانونی ڈھانچے کی سہولت حاصل ہے۔ پاکستان کی IB محدود وسائل اور سیاسی دباؤ کے باوجود دہشتگردی، فرقہ واریت اور جرائم کے خلاف ایک مضبوط رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بھارت میں انٹیلیجنس پالیسی زیادہ مرکزی اور منظم ہے، جبکہ پاکستان میں ادارہ جاتی کشمکش نے کئی بار IB کی کارکردگی کو متاثر کیا۔ لیکن اس کے باوجود، پاکستانی IB نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ یہ ادارہ ریاست کے اندرونی محاذ پر خاموش مگر فیصلہ کن کردار ادا کر رہا ہے۔نتیجہ
پاکستان کی انٹیلیجنس بیورو ایک خاموش جنگ لڑ رہی ہے۔ دہشتگرد تنظیموں کی کمر توڑنے، فرقہ وارانہ گروہوں کے نیٹ ورکس توڑنے، مالیاتی دہشتگردی کے راستے بند کرنے اور ڈیجیٹل محاذ پر دشمن کو شکست دینے میں اس ادارے کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
پاکستان کے عوام کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر IB جیسے ادارے اپنی خفیہ محاذ آرائی نہ کریں تو شاید آج پاکستان میں انتشار اور خون ریزی کا وہ عالم ہوتا جس کا تصور بھی لرزا دینے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنی انٹیلیجنس ایجنسیوں پر تنقید کے ساتھ ساتھ ان کی کامیابیوں کو بھی سراہنا چاہیے، کیونکہ یہ ادارے ہی ریاست کو اندر سے قائم رکھنے کی ضمانت ہیں۔