“1857 سے اگست 1947 تک… یوم تکبیر سے بیان المرصوص تک — نظریے میں ہی بقا اور مقصد میں ہی اتحاد ہے”
تاریخ کا پہلا ورق 1857 میں لکھا گیا، جب ہندوستان کے مسلمانوں نے ظلم کے خلاف بغاوت کی۔ وہ صرف زمین کی لڑائی نہیں تھی، وہ ایک نظریے کی بقا کا اعلان تھا — ایک ایسی شناخت کے تحفظ کی کوشش، جو دین، ثقافت اور عزت پر مبنی تھی۔
پھر آیا 1947… ایک خواب، جو علامہ اقبال نے دیکھا، اور قائد اعظم کی قیادت میں حقیقت بنا۔ پاکستان کا قیام — “لا الہ الا اللہ” کے نظریے پر وجود میں آنے والا ملک۔ ایک نظریہ، جو قوم کو اکٹھا کرتا رہا، مشکلات میں حوصلہ دیتا رہا، اور آزادی کی روح بن کر دلوں میں بسا رہا۔
وقت گزرتا گیا، سازشیں بڑھتی گئیں، لیکن ہم نہ جھکے، نہ بکے۔ اور پھر 28 مئی 1998 آیا — ” یومِ تکبیر ” — جب پاکستان نے دنیا کو بتایا کہ ہم نہ صرف نظریاتی طاقت رکھتے ہیں، بلکہ عملی طور پر بھی مضبوط ہیں۔ یہ محض ایٹمی طاقت کا اعلان نہیں تھا، یہ قوم کے عزم، غیرت، اور نظریے سے وفا کا اعلان تھا۔
آج جب ” بیان المرصوص ” جیسے نعرے گونجتے ہیں، تو وہ محض الفاظ نہیں، وہ اس پوری تاریخ کی گونج ہیں — جس میں نظریہ ہی بقا ہے، اور مقصد ہی اتحاد کا سبب۔
یہ پیغام ہر نوجوان کے لیے ہے: اگر بقاء چاہتے ہو، اگر ترقی چاہتے ہو، تو نظریے سے جڑ جاؤ۔ کیونکہ یہی نظریہ ہمیں 1857 سے 1947، اور 1998 سے آج تک لے آیا ہے — سر بلند، باوقار، اور متحد۔