احمد خان لغاری
کوہ سلمان سے
ڈیرہ غازیخان شہر میں دوتین واقعات اس وقت ٹاپ ٹرینڈ بن چکے ہیں جس کا جی چاہتا ہے وہ ان واقعات پر دل کھول کر تبصرہ کررہا ہے ، حق میں یا مخالفت میں ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ پہلا واقعہ ڈیرہ غازیخان میں ایک مبینہ ٹک ٹاکر کی شادی ہے ، دوسرا واقعہ گلبرگ ہائوسنگ کے متاثرین کا حق انہیں دلا یا جائے جو اس کاروبار میں بطور حصہ دار لٹ چکے ہیں یا پھر وہ غریب جو ایک پلاٹ کے جھانسے میں اپنی ساری جمع پونجی لٹا بیٹھے ہیں، تیسرا سوشل میڈ یا پر اسسٹنٹ کمشنر ہیڈ کوارٹر کے قصابوں اور جعلی دودھ جیسے کاروبار میں ملوث افراد کی سرکوبی کی خبریں اور ویڈیوز ہیں ۔ پہلا واقعہ کی طرف جو بہت شہرت حاصل کر چکا ہے وہ ایک شادی ہے جو مبینہ طور پر ایک ٹک ٹاکر کی شادی جو تین دن تک جاری رہی شہر کے علاوہ ملک بھر سے اور اس سے بڑھ کر بیرون ملک سے بھی مہمانوں کی آمد کا بہت چرچا ہے ، مقامی دو شادی ھالوں میں غیر معمولی رش تھا ، کھانے کا وسیع بندوبست کیا گیا تھا مگر حسب دستور شادیوں میں جسطرح ہوتا ہے کسی کے ہاتھ میں پلیٹ تھی تو کسی کے ہاتھ میں چمچ تھا کسی نے کھانے کا بندوبست منا سب نہ ہونے کا گلہ کیا تو چند حامی لوگوں نے اورمنتظمین کی طرف سے تردید کی جاتی رہی اور پھر طوفان بدتمیزی برپا ہے جو ہنوز جاری و ساری ہے ۔ شادی ھالوں سےنکل کر یہ جھگڑا ذاتی لڑائیوں میں بدل چکا ہے ۔ طوفان بدتمیزی تو تینوں دن جاری رہا جب بھنگڑے، ڈانس ، جھومر اور رقص و سُرور کی محفلیں جاری رہیں اور ہمارے نوجوانوں نے بھرپور حصہ لیا اور باہر سے آنے والے ایک ماہر حکیم جو قومی سطح کے سیاستدانوں سے اپنی جنسی پراڈکٹ پر انعام یافتہ بتائے جارہے ہیں انہوں نے بھی خواتین اور ٹرانس جینڈر شخصیات پر خوب نوٹ نچھاور کیے۔ تین دن تک ہونے والے طوفان بدتمیزی پر ہماری انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی کیونکہ وہ سردار بھی ہے اور امیر کبیر شخص بھی ہے ۔ اور اصل سردار بھی یہ سب دیکھتے رہ گئے عوام بھی سمجھنے سے قاصر ہے کہ سردار اصل میں کون ہے ؟ ہوسکتا ہے ضلعی انتظامیہ نے یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا ہوکہ وہ خود دیکھ لیں کہ سردار کون ہے۔ ہمارےمذہبی طبقہ کی پراسرار خاموشی بھی بتارہی ہے کہ لنگاہ ہی واقعی سردار ہے۔ اس اخلاق باختہ ماحول پر مجرمانہ خاموشی بہت سارے لوگوں کو بے نقاب کر چکی ہے ۔ انتظآمیہ اس کا ہی خیال کرلیتی کہ صوبے کی وزیر اعلی ایک خاتون ہے اور اس کے صوبے میں اور ایک ایسے شہر میں یہ سب کچھ ہواجو شرم و حیا اور خاص روایات کا امین علاقہ ہے ۔
قارئین کرام! گذشتہ کئی دنوں سے گلبرگ ہائوسنگ سوسائیٹی میں غریب لوگوں سے لاکھوں روپے لوٹنے کے بعد ان کے پاس محض فائلیں ہیں اور وہ لٹ چکے ہیں ۔ اس سکیم کےحقداروں میں کئی پردہ نشین شامل ہیں جو اب شرفا کے روپ میں سامنے آکر غریبوں کی لوٹی ہوئی دولت واپس دلوانے کا چکمہ دے کر اصل مجرمان کو راہ فرر دے رہے ہیں ۔ گلبرگ ہائوسنگ کے مالک ایم پی اے بن چکے اور انہیں کیسے ایم پی اے بنوایا گیا، کون لوگ اس کے دست بازو تھے ان میں چند چہرے اب سامنے آکر عوامی ہمدردی سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں اور چند شرفا اپنی صفائیاں دے رہے ہیں متاثرین گلبر گ کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا گیاہے تاکہ ان کازور ٹوٹ جائے اور ساری رقم ڈکارنے میں آسانی رہے۔ ہمارے لوگ بھی ہمیشہ سے لٹنے آرہے ہیں کبھی میڈیسن والوں سے کبھی بائک کے نا پر اور کبھی پلاٹوں کے نام پر لیکن زیادہ تر وہ لوگ جو اصل میں پلاٹوں کا کاروبار کررہے تھے ۔ کئی لوگوں کو دیگر سو سائٹیوں میں پلاٹ کے نام پر پھر دھوکہ اور کسی کو رقم واپسی کا جھانسہ دیکر خاموش رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ عام آدمی جو متاثرہ ہے وہ پہچان ہی نہیں سکتا کہ اصل ذمہ دار کون ہے ؟۔ گلبرگ ہائوسنگ میں رہائش پذیر ہمارے ایک وزیر با تدبیر نے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ان کو بدنام کیا جارہا ہے ان کا اصغر گورمانی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کام ہے کہ وہ اور سردار اویس لغاری متاثرین کےلئے اصغر گورمانی کا پیچھا کرتے رہیں۔ وزیر موصوف خود مظلوم ہیں ان کی قریبی عزیزہ بھی متاثرین میں شامل ہے۔ ڈیرہ غازیخان کے اس سپوت کا اس گلبرگ قضیے سے لاتعلقی کا اظہار اپنی جگہ لیکن عوام کے سامنے حقائق آنے چاہیں ۔ وزیر موصوف نے اپنی تقریر میں غیر اخلاقی سرائیکی محاورہ کا استعمال کرکے اپنی قابلیت کا اظہار تو کردیا لیکن ساتھ ہی ڈیوالہ کا ترجمہ گوالہ کے ہم وزن کرکے علمی رعب جھاڑا ہے اس سے عام آدمی کو مایوس ضرور کیا ہے ۔
حرف آخر کے طور پر سنجیدہ واحقات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہمارے شہر کے اسسٹنٹ کمشنر جو قصاب اور جعلی دودھ فروشوں پر کریک ڈائون کررہے ہیں ان کی کارکردگی اوپر بیان کیے گئے واقعات میں دب کر رہ گئی ہے ۔ موصوف آئے روز قصاب کو جرمانے اور گرفتار کرنے ریٹس کی پڑتال جیسے عوامی مسائل کو حل کرنے میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں وہ باتیں عوام تک نہیں پہنچ رہی ہیں کیونکہ اس وقت ایک سردار کی شادی کے چرچے اور گلبرگ متاثرین کو رقوم کی واپسی جیسے اہم معاملات پر عوامی توجہ مرکوز ہے جبکہ اسسٹنگ کمشنر ہیڈ کوارٹر کی کارکردگی کی بات رہ گئی ہے ۔ اور وہ کہتے ہونگے۔
تیرے اردگر وہ شورتھا، مری بات بیچ میں رہ گئی
نہ میں کہہ سکانہ تو سن سکا، میری بات بیچ میں رہ گئی