مختصر سفر نامہ!
میجر(ر) ساجد مسعود صادق
آپ جب لاہور سے ملتان موٹر وے پر سفر کریں متعدد اسٹاپ راستے میں ایسے آتے ہیں جہاں آپ کھانے پینے، ریسٹ کرنے، پٹرول ڈلوانے کا انتظام ہے
ایک دن میں اور میرا بیٹا ایسے ہی ایک اسٹاپ پر رُکے میں نے بیٹے سے کہا کہ میں واش روم جانا چاہتا ہوں اور تھوڑی بریک کرنا چاہتا ہوں لہٰذا اس نے گاڑی روکی میں جیسے ہی واش روم کی طرف بڑھا تو سامنے دو بورڈ تیر کے نشان کے ساتھ نظر آئے جن پر درج تھا
Executive Washroom
General Washroom
مذکورہ پہلے والے واش روم کے سامنے کُرسی پر ایک نیلے رنگ کی وردی میں ایک سویپر بیٹھا تھا جیسے ہی میں اس کی طرف بڑھا تو وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا اس نے مجھے سلام کیا
میں نے اس سے پوچھا کہ
Executive کا کیا مطلب ہے اس نے بتایا سر یہ وی آئی پی واش روم ہے اور دوسرا عام بندوں کے لئیے میں نے پوچھا اس میں فرق کیا ہے وہ کہنے لگا سر وی آئی پی واش روم میں جانے والے ی فیس سو روپے ہے اور جنرل واش روم کی کوئی فیس نہیں ہے
میں ایک خیال کے تحت اسے چھوڑ کر جنرل واش روم کی طرف چلا گیا جب اندر داخل ہوا تو وہ ایک دم صاف ستھرا اور چم چم کرتا نظر آیا اس کے دروازے پر بھی ایک سویپر کرسی پر بیٹھا تھا میں نے واپسی پر اس سے پوچھا مجھے تو لگتا ہے ان واش روم میں کوئی کبھی آیا ہی نہیں کیونکہ یہاں امیر لوگ گاڑیوں سے اترتے ہیں اور سیدھے وی آئی پی واش روم کا رخ کرتے ہیں میں نے پوچھا کہ تمہاری کوئی فیس ہے اس نے کہا صاحب کوئی فیس نہیں لوگ خوف خدا میں جو دے جائیں
میں نے جیب سے پانچ سو کا نوٹ نکالا اسے تھمایا تو اس کا چہرہ چمک اٹھا گاڑی میں جب واپس آیا تو پتا چلا بیٹا وی آئی پی واش روم میں گیا میں نے اس سے واپسی پر پوچھا اس واش روم میں کیا خاص بات تھی؟ اس نے کہا پاپا مجھے تو کچھ فرق نظر نہیں آیا میں نے پوچھا فیس دی کہتا جی ایک سو روپیہ
میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہماری قوم کے پیسے والے لوگوں کے اندر کیا خرابی ہے کہ ہر کوئی وی آئی پی ٹریٹمنٹ چاہتا ہے حتی کہ لیٹرین بھی انہیں وی آئی پی چاہئیے ایسی ذہنی طور پر وی آئئ پی کلچر کی غلام قوم کیا ترقی کرسکتی ہے؟
پھر خیال آتا ہے کہ غریبوں اور امیروں کے لیٹرین تک جہاں مختلف ہوں تو ایسی تقسیم کو تباہی سے کون بچاسکتا ہے