تحریر طاہراشرف
سیاسی اور عوامی سوچ
اکثر لوگ کہتے ہیں اور سننے کو بھی ملتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کا شمار دنیا کی کمزور معیشتوں میں ہوتا ہے جس کا سامنا شدید قرضوں مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل سے ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور توانائی کے بحران نے کاروباری شعبے کو شدید متاثر کیا ہے حالانکہ کہ پاکستانی عوام بجلی کی مد میں بہت زیادہ اضافی رقم اور ٹیکس دے رہی ہے اور اسی وجہ سے حکومت کی طرح عوام بھی دیوالیہ ہو چکی ہے کوئی اپنا موٹر سائیکل بیچ کر کوئی اپنی بیٹی کے جہیز کی چیزیں بیچ کر اور کوئی اپنا سائیکل وغیرہ وغیرہ پیچ کر گیس اور بجلی کے بل جمع کروا رہے ہیں حکومت کے معاشی بحران نے بھی عوام کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے حکومتیں اپنے رکھ رکھاؤ اور پروٹوکول کی مد میں مالی استحکام کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں سے قرضے لینے پر مجبور ہیں اور قرضے کا برائے راست عوام کا کو فائدہ نہیں اور نہ ہی اب تک عوام کی حالت بدلی اور نہ ہی کبھی بدلے گی ہاں یہ ضرور ہوا ہے کے سیاست دانوں کی تنخواہ 230% بڑھنے سے عوام پر اور بوجھ بڑھ گیا ہے شائد اسی وجہ سے روزبروز لوگ دوسرے ملکوں میں ڈھڑا ڈھڑ جا رہے ہیں
سیاست صرف آئین کے دائرے میں رہ کر کی جا سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری سیاست کا وجود ہی آئین پاکستان کی وجہ سے ہے۔ آئین میں واضح ہے کہ پاکستان ایک قومی ریاست ہے۔ اس کا نظام پارلیمانی جمہوری نظام پر محیط ہے۔ جس کا آئینی نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ اس کے علاوہ آئین نے حکومت کا پورا ڈھانچہ بیان کر دیا ہے۔ جبکہ ریاستی طاقت کو مختلف شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان شعبوں میں قومی اور صوبائی اسمبلیاں، عدلیہ اور پارلیمان شامل ہیں ملکی حالات اور اقتصادی صورت حال پر گہری نگاہ رکھنے والے غیرجانبدار تجزیہ کاروں کی رائے کے مطابق اگر ملک کے موجودہ زمینی حالات اور معاشی صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑیگا کہ ائیرکنڈیشن دفاتر اور لگژری گاڑیوں میں بیٹھ کر سب اچھا ہونے کا راگ الاپنے والے حکمران طبقے کے دعوؤں کا حقیقت سے دور دور تک تعلق نظر نہیں آتاچونکہ موجودہ حالات میں عام آدمی کیلئے اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کرناناممکن ہو چکا ہے۔
پہلا پہلو تو یہ ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف میں جاری کشیدگی اور لفظی جنگ کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ ایک دوسرے پر لگائے جانے والے الزامات سیاسی ماحول کو مزید آلودہ کررہے ہیں۔ پریس کانفرنسوں میں اپنے سیاسی مخالفین پر گھناؤنے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور پارلیمانی کارروائی کے دوران ایک دوسرے کو غدار کہنے اور جارحانہ حرکات کا ارتکاب کیا جارہا ہے۔پہلا پہلو تو یہ ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف میں جاری کشیدگی اور لفظی جنگ کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ ایک دوسرے پر لگائے جانے والے الزامات سیاسی ماحول کو مزید آلودہ کررہے ہیں۔ پریس کانفرنسوں میں اپنے سیاسی مخالفین پر گھناؤنے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور پارلیمانی کارروائی کے دوران ایک دوسرے کو غدار کہنے اور جارحانہ حرکات کا ارتکاب کیا جارہا ہے
بحیثیت قوم ہمیں ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا پڑے گا۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے نہیں ان کے ازالہ سے قومیں آگے بڑھتی ہیں۔ ملک اندرونی طور پر کسی بھی قسم کے انتشار و افتراق اور تصادم و محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن بدقسمتی سے زمینی صورت حال ایسی نہیں جسے مثالی قرار دیا جا سکے۔