میجر (ر) ساجد مسعود صادق
آج دُنیا کا کونسا خطہ ہے جہاں مُسلمانوں کا خون پانی کی طرح نہیں بہایا جارہا؟ فلسطین میں یہودی بربریت، کشمیر میں بُت پرستوں کی معصوم عورتوں بچوں پر یلغار، روہنگیا میں ایک ایک قبر میں سینکڑوں زندہ مسلمانوں کا درگور کرنا اور ماضی میں جو کُچھ بوسنیا میں ہوا کیا یہ سب ظلم و ستم مُسلمانوں کے دلوں کو پگھلانے کے لیئے کافی نہیں؟ افسوس جو یہ قبیح کام کرتے ہیں آج اُمت کا ایک بڑا حصہ انہی کی چاپلوسی ، ان کے لیئے سُرخ کارپٹ بچھانے، ان سے دوستیوں پر فخر کرنے، اُن سے امداد کے نام پر بھیک لینے، ان کے ساتھ کاروبار کرنے میں مگن ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام اور ایمان اب مُسلمانوں میں نہیں بچا۔ آج کے منبرو محراب کے وارثوں کا یہ حال ہے کہ “رہ گئی رسمِ اذاں، رُوحِ بِلالی نہ رہی ۔۔۔فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی۔” اس وقت جب دُنیا میں تیسری عالمی جنگ کی آہٹ واضح سُنائی دے رہی ہے ایسے میں مُسلمان اُمت فرقہ واریت کے ناسور میں شدت کے ساتھ مُبتلا ہے۔ کسی کو خیال ہے کہ “ایمان، اتحاد، جہاد فی سبیل اللّٰہ” یہ کسی بھی میدان کارزار میں کامیابی کی تین چابیاں ہیں؟
آج منبرو محراب عملی میدان میں مسلمانوں کی رہنمائی کرنے سے یکسر قاصر نظر آتے ہیں کیونکہ بقول حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال “الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن ۔۔۔ مُلّا کی اذاں اور، مجاہد کی اذاں اور” آج مُلاں اور عملی زندگی دو مخالف سمتوں میں سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ آج اسلام کو مُلا سے زیادہ مجاہدین کی ضرورت ہے۔ مُسلمانوں کے معروضی حالات کا مطالعہ کرنے بیٹھیں اور اس میں منبرو محراب کے کردار پر جب غور کیا جائے تو بے اختیار زبان پر یہ الفاظ آتے ہیں “دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے ۔۔۔اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔” اگرچہ مسلمانوں کو دوسری امتوں کی نسبت فضیلت ہے لیکن عملی میدان میں رفتہ رفتہ ان کا حال بھی سورة البقرة کے مطابق “اہل کتاب” کی طرح ہوتا گیا۔ یہودیوں کو تو اللّٰہ نے فرمایا “ان پر میں نے ذلت، مسکینی اور اپنا غضب مسلط کردیا ہے” اور پھر سورہ آل عمران میں فرمایا کہ ن پر ذلت اور مسکینی مسلط کی گئی ہے جب تک ان کو اللّٰہ یا انسانوں کی طرف سے سپورٹ نہ ملے۔
آج فرقوں اور چھوٹے چھوٹے کمزور ممالک میں بٹے کسی طور بھی ذلت اور مسیکنی سے الگ زندگی نہیں گُذار رہے۔ ڈیڑھ ارب مُسلمان پر مُشتمل ستاون اسلامی ممالک آج بڑی طاقتوں کے سہارے کے محتاج ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ان میں اتحاد نہیں ہے۔ پہلی امتوں کا بھی یہی حال تھا کہ جب اُن کے پاس “مکمل علم” یا اللّٰہ کی طرف سے “واضح نشانیاں” آجاتی تھیں تو وہ آپس میں “ذاتی بغض” کی وجہ سے اختلاف کرتے تھے اور یوں کمزور ہوتے اور کافر اُن پر غالب آجاتے۔ عصرِ حاضر میں سُنی، شیعہ، بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث وہ ٹائٹل ہیں جن کے سرکردہ مگر نام نہاد علماء نے مذہب اسلام کا حُلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس کے پاس حقیقی علم ہوگا اور قرآن کا مطالعہ رکھتا ہوگا وہ کبھی تفرقہ کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا کیونکہ وہ ذلت و مسکینی اور غضب الہی کو کیسے دعوت دے سکتا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ وہ اپنے مُسلمان بھائی سے “بغض” کیونکر رکھ سکتا ہے۔ لیکن آج یہ بغض نام نہاد علماء میں کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہے اور اسی زہر کے زیرِ اثر وہ دین کی تبلیغ کرتے ہیں۔
آج جس وقت سارا عالم کُفر مُسلمانوں اور اسلام کو مٹانے پر تُلا ہوا ہے کم از کم ہمارے علماء قرآن کی اس بات پر تو عمل کرسکتے ہیں کہ “آؤ (اہل کتاب) ہم اُس کلمے پر اکٹھے ہوجائیں جو تم میں اور ہم میں مُشترک ہے۔” یہاں کلمہ سے مُراد “شرک کا ابطال اور توحید پر کاربندی” ہے۔ مُسلمانوں کو آج اگر بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جائے تو اس میں اہل حدیث، اہل سُنت (بریلوی اور دیوبندی)، اہل تشیع کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ فرقہ واریت اور تعصب کی عین اُتار کردیکھا جائے تو اہل حدیث کا دعوی حدیثِ نبوی ﷺ پر چلنے کا ہے، اہل تشیع کا دعوی آل بیعت کی سُنت پر عمل کا ہے، بریلوی اپنے آپ کو اولیاء اللّٰہ کا وارث سمجھتے ہیں اور دیوبندی دین اسلام کی تبلیغ کے دعویدار ہیں۔ ان چاروں افکار میں کوئی خرابی نہیں لیکن جب تک ان چاروں عناصر کو یک جا جمع نہ کیا جائے کوئی بھی کلمہ گو پورا مُسلمان بنتا ہی نہیں۔ قرآن و حدیث، آلِ بیعت کی محبت اور صالحین کا راستہ اور دین کا فروغ یہ سب جب احسن چیزیں ہیں تو پھر ایک ” ذاتی بغض” ہی بچتا ہے جو ان سب گروہوں کو تقسیم کیئے ہوئے ہے۔
آج دُنیا میں ایک بھی ایسا مُسلمان مُلک نہیں جو تن تنہا عالم کُفر کا مقابلہ کرسکے اور مُسلمانوں میں اتحاد ہے نہیں کہ وہ مُتحد ہوکر عالم کُفر کا مقابلہ کرسکیں۔ دہشت گردی کی جنگ سے لیکر آج تک دُنیا بھر میں تمام اسلامی ممالک کو ایک ایک کرکے تباہ کیا گیا اور جو چند بچے انہی میں سے پاکستان ایک ہے۔ بھارت کے خلاف الحمدوللّٰہ پاکستانی عوام نے قومی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کیا اور افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئی جس سے اپنے سے پانچ گُناہ بڑے دُشمن کو افواج پاکستان نے چِت کردیا۔ آج ایران پر یہودی یلغار ہے اور کُچھ نادان پاکستانی ایرانی آبادی کی اکثریت کے شیعہ ہونے کی وجہ سے اُن کے ساتھ کھڑا ہونے کو گریزاں نظر آتے ہیں یا پھر ماضی میں ایران نے کوئی ایسی روش اختیار کی جو پاکستانی مُفاد میں نہیں تھی تو کیا اُس کو جواز بناکر یہودونصارٰی کی ایران پر بربریت کا تماشہ دیکھا جائے؟ یہی وہ میدان ہے جہاں منبرو محراب اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے اور مذہبی تفریق پر کاری ضرب لگاتے ہوئے “ذاتی بغض” کے زہر کا تریاق کرنا ہے۔
منبرو محراب کا حق یہی ہے کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق کسی بھی تفرقہ بازی اور مسالکی تعصب سے بالاتر کر حق کو کھول کر بیان کیا جائے اور قرآن و حدیث کی مدد سے مُسلمانوں کو جوڑا جائے۔ سورہ آلِ عمران میں اللّٰہ نے اسلام کے ماننے والوں کو نہ صرف بھائی بنایا ہے بلکہ بھائی بنا کر فرمایا کہ یہ میری نعمت ہے کہ میں نے تمہیں بھائی بنایا۔ اسلام ایک مقناطیسی قوت ہے جس سے دل جوڑے جاتے ہیں لہذا اس کی تبلیغ سے محبت و بھائی چارے کی فضا پیدا کی جائے نہ کہ دلوں میں کدورتوں اور دُشمنی کے بیج بوئے جائیں۔ قرآن و حدیث کا پیغام اور صالحین کا طریقہ دین کے ذریعے لوگوں کو اللّٰہ سے جوڑنا ہے نہ کہ دین کے ذریعےھ نفرتوں کی آبیاری۔ دُنیا میں جس وقت تیسری عالمی جنگ کے لیئے صف بندی ہورہی ہے ایسے میں مُسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھے ملانا ہے نہ کہ ایک دوسرے کے بغض کی وجہ سے اللّٰہ اور اسلام کے دُشمنوں کی طرفداری۔ معروضی حالات کے مطابق تمام مکاتب فکر کے علماء کو ہنگامی حالات کے تقاضوں کے مطابق عوام الناس کی رہنمائی کے لیئے ضابطہ اخلاق بنانے کی اشد ضرورت ہے۔