کرا چی ( 14 نومبر 2024): ایف پی سی سی آئی کی قائم مقام صدر محترمہ قرۃ العین نے کہا ہے کہ فیڈریشن ونٹر پیکیج کے اعلان کو سراہتی ہے؛لیکن اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ونٹر پیکیج کے تحت اعلان کردہ بجلی کے ٹیرف میں ریلیف چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کو بھی فراہم کیا جائے۔مزید برآں، پچھلے سال کی اسی مدت میں ایک لاکھ یونٹس کی کھپت اور اس کے اوپر مزید استعمال کیے جانے والے یو نٹس پر ہی ونٹر پیکیج کے 26 روپے فی یونٹ کی شرط کو واپس لیا جائے؛ کیونکہ، ایس ایم ایز اور نئی اندسٹر یز کے لیے اس شرط کو پورا کرنا نا ممکن ہے۔قائم مقام صدر، ایف پی سی سی آئی، محترمہ قرۃ العین، نے وضاحت کی کہ اگر یہ شرط برقرار رہی تو ایس ایم ایز اور نئی صنعتیں اس شرط کو پورا نہیں کر سکتیں؛ لہذا، وہ بڑے صنعتی یو نٹس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ اس بنا پر حکومت کو صنعتی پیداوار اور برآمدات میں اپنے ونٹر پیکیج کے مکمل نتائج نہیں ملیں گے؛ کیونکہ ونٹر پیکیج کے لاگو ہونے میں یہ شرائط ٹر یڈ اور انڈسٹری کے لیے پیش کردہ پیکیج کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹیں پیدا کریں گی۔قائم مقام صدر، ایف پی سی سی آئی، محترمہ قرۃ العین، نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ فیصل آباد میں 100 ٹیکسٹائل یونٹس پہلے ہی کاروبار کرنے کی بڑھتی ہوئی لاگت اور ملک میں کاروبار کرنے میں آسانی کے پیرامیٹرز میں حائل مشکلا ت کی وجہ سے بند ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت کو نہایت بلند رکھنے والے دو سب سے بڑے عوامل بجلی کا ٹیر ف اور 15 فیصد کا پالیسی انٹرسٹ ریٹ ہے اور اسی بناپر پاکستان میں کا سٹ آف پروڈکشن تمام علاقا ئی ممالک سے زیادہ ہے۔ محترمہ قرۃ العین نے روشنی ڈالی کہ اکتوبر 2024 میں بنیادی مہنگائی 7.2 فیصد پر آ گئی ہے؛ جبکہ، کلیدی انٹر سٹ ریٹ 15 فیصد پر برقرار ہے؛جو کہ780 بیسس پوائنٹس (bps) کے بڑے پریمیم کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے شرح سود کو سنگل ڈیجٹ پر لانے کے FPCCI کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (MPC) کے اگلے اجلاس میں ایک ہی جست میں یہ پالیسی فیصلہ کیا جانا چاہیے۔ نائب صدر و ریجنل چیئرمین، ایف پی سی سی آئی، عبدالمہیمن خان، نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) کی طرف سے ہر سال ہو نے والے نقصانات کا مسئلہ اٹھاتے ہو ئے کہا کہ مالی سال 2025 میں یہ نقصانات تقریباً 600 ارب روپے ہونے کی توقع ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ان مالی نقصانات کو روکنے اور بجلی کے نرخوں کو معقول بنانے کے لیے اس بفر کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر امان پراچہ نے زور دیا کہ حکومت کو کے الیکٹرک کی جانب سے نیپرا میں اپنی ریکوزیشن کے ذریعے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنے کی کوششوں کو روکنا چاہیے؛ کیونکہ، کراچی کی کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہے، جس کی وجوہا ت بڑھتی ہوئی کا روباری لاگت اور کم ہو تے ہو ئے منافع کے مارجن ہیں۔ امان پراچہ نے مزید کہا کہ حکومت کو وسیع تر قومی مفاد میں کراچی کے لیے بجلی کے نرخوں میں مزید کسی بھی اضافے کی مزاحمت کرنی چاہیے۔