تحریر طاہراشرف
ہماری جمہوریت مٹھی میں ریت کی طرح
ہمارے معاشرہ اور ہمارے سیاستدان چاہتے ہیں کہ ہر پانچ سال بعد باقاعدگی سے عام انتخابات کا شفاف غیر جا نبدارانہ اور آزادانہ انعقاد یقینی بنایا جائے اور اس میں کسی قسم کا تعطل نہ آنے پائے لیکن جب ان سے پارٹی الیکشن کروانے کو کہا جائے تو یوں منہ بسور لیتے ہیں جیسے کسی نے ان سے لالی پوپ چھین لی ہو۔الیکشن کمیشن کے دبائو پر طوعاً وکرہاً ہر پارٹی میں انتخابات کروائے تو جاتے ہیں لیکن ان کی قانونی، سیاسی اور اخلاقی حیثیت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ہوا میں کھڑا مقناطیس ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتا ہو۔ہمارے سیاستدانوں کو یہ بھی گوارہ نہیں کہ کوئی ان کے مقابل آئے اور یہی المیہ ہے ہماری جمہوریت کا یہ بھی پسند نہیں کہ رسمی طور پر ہی کسی کو کوئی عہدہ یا اختیار دیدیا جائے۔کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں نہیں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں،ان سیاسی خانوادوں کی ذاتی و خاندانی اور سیاسی جاگیر ہیں جس پر کسی ورکر کا کوئی حق نہیں۔
ہمارے سیاسی سماج پر اب کھل کر بحث ہونی چاہئے اس لئے کہ عوامی بیداری کے لئے یہ بہت ضرور ی ہے۔ حالانکہ آج کے دور میں ہردُور اندیش شخص اس بات کو اچھی طرح سے جانتا اور سمجھتاہے کہ ہماری موجودہ سیاست کے کتنے چہرے اور کتنے رنگ ہوتے ہیں۔اس سیاست کا روپ سروپ دور سے جتنا خوبصورت دکھائی دیتا ہے ،قریب سے اتنا ہی بھیانک ہے۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ موجودہ عہد میں سیاست محض سیاست نہیں رہی بلکہ موجودہ سیاست کو کاروبار اور سامراجی ،فسطائی اور استعماری طاقتوں نے یرغمال بنا لیا ہے۔مشہور مقولہ ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا ہماری جمہوریت اور ہمارا معاشرہ بھی اُسی طرح کا ہے ہماری خودپسند اور زردار قیادتیں عوامی احساسات اور امنگوں سی کوسوں دور ہیں اور یہی ہماری عوام کی قسمت ہے شائد آئندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہ کریں۔