تحریر طاہرمغل
جمہوریت اور عام انسان
پہلے ادوار میں بادشاہی نظام تھے اور عام انسان غلام تھے جو کہ صدیوں تک ایسے ہی چلتا رہا جب انگریز کو پتہ چلا کہ کوئی بادشاہ اُن کی بات مان لیتا ہے اور کوئی آنکھیں نکالنا شروع کر دیتا ہے تو انگریز نے آہستہ آہستہ دنیا میں جمہوریت کا درس دینا شروع کر دیا اور پھر اسی فیصد ملکوں میں جمہوریت شروع ہو گئی بادشاہی دور میں سب انسان ایک بادشاہ کہ غلام ہوتی تھی جب سے جمہوریت آئی غلامی تقسیم ہو گئی اور اس جمہوریت نے بڑے بڑے زمینداروں بڑے بڑے کاروباری افراد کو بڑے بڑے بتھہ خوروں کو اور بڑے بڑے نام نہاد لوگوں کو اس جمہوریت میں آنے
سوچا اور جمہوریت کے نام سے اک کھیل شروع ہوا جس کو سیاست کہتے ہیں اور ہر سیاست دان کو جمہوریت کے نام پرفری میں ہزاروں لاکھوں غلام مل گئے کیونکہ غلام نہ جمہوریت کا حصہ ہے نہ ہی سیاست اج تک میں نے اپنی زندگی میں کسی غلام کو ایم پی اے اور ایم این اے یا سینٹر بنتے نہیں دیکھا اگر صوبائی اسمبلی میں دیکھا جائے تو کوئی بھی عام انسان وہاں نہیں جا سکتا نہیں بیٹھ سکتا اور نہ ہی الیکش لڑ سکتا ہے کیونکہ یہ سب جمہوریت اور سیاست صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو یا تو بہت بڑے زمیندار ہیں یا کوئی فیکٹری کا مالک ہو ویسے ان سب کی تعلیم یا تو ایف اے یا بی اے ہی ہوتی ہوگی ویسے اگر دیکھا جائے تو عام آدمی چاہے ماسٹر کیا ہو یا پی ایچ ڈی ہو یا اس،سے بھی زیادہ پڑھا لکھا ہو وہ نوکری ہی کر سکتا ہے یا وہ نوکر ہی کہلاتا ہے اور غلاموں کے حصے میں بس نوکر ہی بننا ہوتا ہے وہ چاہے جتنی مرضی تعلیم حاصل کر لیں وہ کبھی بھی سینٹ قومی اسمبلی صوبائی اسمبلی کا الیکش نہیں لر سکتے کیونکہ وہ غلام ہیں کمزور ہیں اگر وہ کبھی الیکشن کو سوچ بھی لیں تو پھر بھی وہ چیز اُن کے لیے سزا بن جاتی ہے کیونکہ ہمارے سیاستدان پاورفل ہیں وہ ان سب کا مقابلہ نہیں کر سکتا نہ ہمت کر سکتا ہے اور نہ اتنا پیسہ ہوتا ہے کسی غلام کے پاس جو ان سب کا مقابلہ کیا جا سکے ہمارے اس معاشرے میں عام انسان سے جینے کا ہر لمحہ چھینا جا رہا ہے اور وہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مرنے کو ترجیح دے رہا ہے اور جینے کو کوئی امید اگر رہ بھی گئی ہو تو وہ ان بڑے بڑے سیاستدانوں اور ایلیٹ کلاس نے وہ بھی نہیں دہنے دی ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ عام انسان عام انسان سے بھی نیچے گھستا جا رہا ہے وجہ ان سیاستدانوں کے پروٹوکول ان کے اخراجات اور ان کی جمہوریت نما سیاست جس میں جمہوریت کے لیے صرف اور صرف موت ہی ہے اور جب بادشاہی نظام ہوتے تھے تب پھر بھی کچھ نہ کچھ غریب کو مل جاتا تھا اور بادشاہ عام آدمی کی بھی بات سن لیتے تھے جب انگریز نے جمہوریت کا نعرہ لگایا تب سیاستدان پیدا ہوئے تب غریب غریب سے غریب تر ہوتا گیا اور امیر امیر سے امیر تر ہوتا گیا اور یہی انگریز کی حکمتِ عملی تھی کیا کبھی عام انسان کے لیے کسی سیاستدان نے قربانی دی؟؟؟؟؟کیا کبھی کسی سیاستدان نے اپنے حصے کی بجلی پیٹرول گیس یا دوسری ضروریات زندگی دی ہیں جو کہ وہ سب کچھ ان عام انسان کی تنخواہ اور مزدور کی مزدوری اور کاروبار کرنے والے کی بچت سے ڈنکے کی چوٹ پر وصول کرتے ٹیکس کی مد میں آج تک میں نے ایسا کچھ نہ دیکھا نہ سنا سن اپنے اخراجات ان عام انسان جن کو یہ سب جمہوریت کہتے ہیں سب اُسی جمہوریت سے وصول کرتے ہیں آخر کب تک یہ عام انسان ان سب کے اخراجات کی گٹھی اپنے سر پر آٹھائے رکھے گا کب تک اپنے بچوں کو بھوکا سلا کر ان سب کا پیٹ بھرتا رہے گا کب اس عام انسان کو اس جمہوریت کے پھل ملیں گے کب تک عام انسان خوشدلی سے جینے کے لیے کوشش کر گا کب تک وہ سب سہولیات میسر ہونگی جو ایک سیاستدان کو ملتی ہیں کب تک اُس عام انسان کے بچے بھی اچھا کھائیں گے اچھا پہنیں گے پہلے بادشاہی نظام تھے تو ایک بادشاہ کھا پی جاتا تھا اپ ہزاروں بادشاہ ہیں اور کڑوروں عام انسان لیکن پھر بھی عام انسان بھوکا بھی رہتا ہے پھر بھی گنہگار ٹھہرتا ہے ۔