
کراچی ( ای این آئی ) وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کہا ہے کہ رواں سال 11 ہزار سے زائد ٹیکس سے متعلق شکایات موصول ہوئیں جس میں 94 فیصد کا فوری فیصلہ کیا۔ قانون کے مطابق وفاقی ٹیکس محتسب 60 دن میں فیصلہ کرنے کا مجاذ ہے تاہم ٹیکس کنند ہ کی سہولت کیلئے اوسط فیصلہ 37 دن میں کر رہے ہیں۔ وفاقی ٹیکس محتسب کا فیصلہ حتمی اور ایف بی آر پر تعمیل لازمی ہے،ایف ٹی او کو شکایات موصول ہوتے ہیں ایف بی آر کی تمام کارروائی روک دی جاتی ہے، صدر پاکستان سے ہی وفاقی ٹیکس محتسب کے فیصلے کیخلاف اپیل کی جاسکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی)میں خطاب میں کیا۔ تقریب میں کاٹی کے صدر جنید نقی، سینئر نائب صدر اعجاز احمد شیخ، نائب صدر طارق حسین، قائمہ کمیٹی کے چیئرمین طارق ملک، سابق صدر مسعود نقی، ایف ٹی او سے الماس علی جوویندہ، ڈاکٹر فیض الہی میمن، فیصل محمد ابریجو، بدرالدین احمد قریشی، گل رحمان ، عابد محمود اور شاہد نواز سمیت ممبران اور صنعتکار موجود تھے۔ وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے مزید کہا کہ ایف ٹی او سے متعلق عوام اور تاجر برادری میں آگاہی کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔ وفاقی ٹیکس محتسب کا عہدہ سپریم کورٹ کے معزز جج کے مساوی ہے اور ایف ٹی او کے فیصلے کے خلاف اپیل صرف صدر مملکت سے ہی کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر پاکستان کے پاس جو اپیلیں گئیں ان میں سے 98 فیصد پر وفاقی ٹیکس محتسب کے فیصلوں کی توثیق کی گئی۔ وفاقی ٹیکس محتسب نے مزید کہا کہ سال 2021 میں 17.8 ارب روپے کے ریفنڈ کی شکایت کا ازالہ کیا گیا۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کہا کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد ریجنل دفاتر کی تعداد میں اضافہ کیا جس سے عوام کی رسائی ایف ٹی او تک بڑھی۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کہا کہ ٹیکس دہندگان کسی بھی قسم کی شکایت کیلئے بلا خوف فوری رابطہ کر سکتے ہیں، اس سلسلے میں ایف بی آر کے چیئرمین نے بھی فیصلہ جاری کیا جس کے مطابق کسی بھی شکایت کی صورت میں مذکورہ شکایت کنندہ پر کسی قسم کا کوئی نوٹس یا آڈٹ کا حکم نہیں دیا جاسکے گا۔ اس سے قبل کاٹی کے صدر جنید نقی نے کہا کہ موجودہ حالات میں ٹیکس دہندگان کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا، ایف بی آر حکام کی جانب سے صنعتکار و تاجر برادری کو ہراساں کرنے کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، حکام کی جانب سے غیر ضروری نوٹسز، اور آڈٹ کے نام پر پریشان کی جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صنعتکاروں کی جانب سے بے شمار شکایات موصول ہوتی ہیں جس میں بلا جواز نوٹس بھیج کر پریشان کیا جاتا ہے۔ کاٹی کے صدر نے کہا کہ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے میں بھی بہت مشکلات ہیں،ایف بی آر کا سسٹم سست روی کا شکار رہتا ہے جس کا خمیازہ فائلر کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صنعتکاروں کے ریفنڈز کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں، ایف بی آر حکام بلا وجہ ریفنڈ روک لیتے ہیں جس سے صنعتکاروں کی مشکلات اور سرمائے کی قلت بڑھتی جارہی ہے۔جنید نقی نے مزید کہا کہ پاکستان میں ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کی بجائے موجود ٹیکس دہندگان پر اضافی بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیلئے ایف بی آر کے اقدامات نا کافی ہیں، صرف 30 فیصد معیشت دستاویزی ہے جس کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین طارق ملک نے وفاقی ٹیکس محتسب کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے 2021 میں عہدہ سنبھالا اس وقت 2 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوتی تھیں لیکن ان کی انتھک محنت اور تاجر برادری کا اعتماد بڑھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی سربراہی میں ٹیکس محتسب کی جانب سے 60 دن میں ہونے والے فیصلے 37 دن میں کئے جارہے ہیں جسے بزنس کمیوٹی بہت سراہتی ہے۔ سابق صدرمسعود نقی نے کہا کہ وفاقی ٹیکس محتسب کے متعلق عوام اور تاجر برادری میں آگاہی بہت کم ہے اس سلسلے میں عوام کو معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس نظام میں خامیوں کے باعث بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے۔ جبکہ ٹیکس سے متعلق اکثریتی مسائل پرانے ریفنڈز کے ہیں جو طویل عرصہ سے زیر التوا ہیں۔اس موقع پر کاٹی کے سینئر نائب صدر اعجاز احمد شیخ نے بھی خطاب کیا۔