کبھی کبھی خاموش تماشائی بننے سے بہتر ہوتا ہے کہ آواز اٹھائی جائے تاکہ آگلے کو محسوس ہو کہ کو تو ہے جو میرے ساتھ کھڑا ہے میری آواز بنتا ہے میرے ساتھ کھڑا ہے جس سے آگلے کو حوصلہ ملتا ہے ہمت ملتی ہے کاش ہم کھڑے ہو جاتے آواز دیتے اور دنیا کو محسوس کرواتے کہ مسلمان جہاں بھی ہیں جدھر بھی ہیں پر اکیلے نہیں ہیں فلسطینیوں پر اسرائیلی حملوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے جس پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے فلسطینی جوانوں کی جانب سے شروع کی جانے والی تحریک کو دبانے کے لیے کیمیائی مواد کا استعمال بھی کیا۔جس کے استعمال کے بعد سانس بند ہونے لگتی ہیاور انسان قے کرتے کرتے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی مظالم میں دن بدن اضافہ ہو تا گیا ۔اور اسرائیل نے غزہ سمیت نابلس اور دیگر شہروں میں مہلک اور کیمیائی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال بھی کیا۔پوری دنیا اس بات سے باخبر ہے کہ اسرائیل مشرقی وسطی میں کیمیائی ہتھیاروں کی سب سے زیادہ پیدوار بھی کر رہا ہے اور بھارت اسرائیل کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے
فلسطینی عوام پر اسرائیلی مظالم روز بروز بڑھ رہے ہیں مسلم حکمرانوں کیلئے ماضی کی کوتاہیوں کا کفارہ ادا کرنے کا یہ بہترین وقت ہے لیکن ہم نے آج تک کسی بھی سانحے سے سبق نہیں سیکھا کیونکہ ہم بلی کے آ جانے سے جس طرح کبوتر آنکھیں بند کر لیتا ہے اسی طرح ہم نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں لیکن شکار پھر بھی کبوتر کو ہی ہونا ہوتا ہے۔ویسے تو پوری دنیا کے مسلمان فلسطین کے نہتے مسلمانوں کے ساتھ اپنی ہم آہنگی اور تعاون کا اظہار کریں، تاکہ انہیں یہ محسوس ہو کہ اس مسئلے میں ہم اکیلے نہیں ہیں، بلکہ پورا عالم اسلام ہمارے ساتھ ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:اللہ تعالیٰ تمہیں ان غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف سے نہیں روکتا ، جنھوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہ کی ہو اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا ہو ، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔افسوس تو یہ ہے کہ اسلامی ممالک کا ضمیر اس ظلم و درندگی کی خبریں دیکھنے کے باجود بھی بے حس ہو چکا ہے۔ فلسطین اور غزہ کے قریبی ممالک مصر،اردن، شام، کویت، سعودی عرب اور عراق نے بھی اس صورت حال کی جانب کوئی توجہ دینے کی بجائے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ دنیا بھر کو سستا تیل فراہم کرنے والے عرب ممالک تیل کے ہتھیار کو بھی استعمال کرنے سے گریزاں ہیں۔ ماضی قریب میں یہی عرب ممالک عراق، ایران جنگ۔ پھر کویت،عراق جنگ کا مہرہ بنے اپنی ہی تباہی و بربادی اپنے ہاتھوں سے کرتے رہے۔
اب یہ سلسلہ وہ شکل اختیار کرچکا ہے جس نے صہیونی سازش کو پوری طرح عیاں کر دیا ہے۔ اب وہ نام نہاد عالمی طاقتیں بھی خود کو اس سازش کے آگے بے بس محسوس کر رہی ہیں۔فلسطین کی سرزمین پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف ایک سیاسی تنازع یا زمینی جھگڑا نہیں، بلکہ پوری دنیا کے ضمیر کا امتحان ہے۔ وہاں صرف جسم زخمی نہیں ہو رہے، بلکہ انسانیت، انصاف، اور عالمی اصولوں کو بموں اور میزائلوں سے چیر دیا گیا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ فلسطین کیوں جل رہا ہے، سوال یہ ہے کہ دنیا کیوں خاموش ہے؟ اور ہم — جو خود کو با شعور، مہذب اور مسلم کہتے ہیں — آخر کب تک خاموش رہیں گے؟