کوہِ سلیمان سے
احمد خان لغاری
میں کوئی دفاعی تجربہ کار نہیں ہوں اور نہ ہی عالمی صف بندی کی باریکیوں کو سمجھ پا رہا ہوں لیکن ایک عام مگر ذی شعور اور فکر و نظر کے حامل انسان کی طرح بغیر لگی پٹی کچھ اپنی رائے کر سکتا ہوں جو میں نے کی ہے اور آپ کی خدمت میں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔پہلے ہم فلسطین اور غزہ کی بات کریں تو ہم غزہ کے مسلمانوں کیلئے سوائے ان کی مرہم پٹی کے اور کیا کر سکتے ہیں اور غزہ کھنڈر بن چکا ہے اور لوگ کھانے اور پانی کیلئے لائنوں میں لگے نظر آتے ہیں اور دربدر بھٹکتے پھررہے ہیں۔ ہمارے سوشل میڈیا کے مجاہدین سرگرم ہیں مگر ان کی نصرت سے مثبت نتائج کی ہرگز توقع نہ پہلے تھی اور نہ اب منتظر رہیے گا۔ غزہ کے مسلمانوں کی طرح آج ایران بھی میدان کا رزار میں تنہا نظر آتا ہے۔ مسلمان ممالک کی محض سفارتی تائید کافی نہیں بلکہ بقول کسے جب میدان گرم ہوتے ہیں تو پھر تیرو تفنگ اور قوت بازو کی ضرورت ہوتی ہے جسکے میسر آنے کا دور دور تک امکان دکھائی نہیں دیتا۔ امریکہ کے عزائم تو بہت واضع ہے جو اسرائیل کا استحکام چاہتا ہے۔ اور ہر قسمی مزاحمت کا خاتمہ چاہتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ قرب کرسکتاہے۔ں اور خطے کے اسلامی ممالک اور اہل اسلام کے عزائم کیا ہیں؟
ہمارے دینی بھائی انفرادی طور پر اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں، اجتماعی سوچ یا بقائے باہمی کا تصورنہ دارد۔ غرب لیگ پہلے بھی خاموش تماشائی اور ہنو ز خواب غفلت میں ہے اگر کچھ ہوا بھی تونشسند، گفتد برخواستذ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اگر غزہ اور ایران میں علاقائی ریاستیں خاموش تماشائی، غرب لیگ، اور آئی سی مہر بلب ہیں۔ تو کیا پاکستان ایران کی مدد کیلئے کوئی عملی قدم اٹھائے؟ ہم بھی ایک قومی ریاست ہیں سوائے مرہم پٹی کے اور کچھ نہیں کرسکیں گے۔ یہ امرکسی مسلم ملک کیلئے خوش کن نہیں ہے لیکن کیا کریں اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کو نشانہ بنا یا تو کوئی مدد کونہ آیا تو یہی وجہ ہے کہ دشمن آگے بڑھا، اسرائیل امریکہ کا ہرا اول دستہ ہے، وہ فلسطین تک پھیلے یا سعودی عرب اور اردن کو اپنی لپیٹ میں لے اسکو کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ وہ جس سر زمین کو چاہے اسرائیل بنادے۔ پاکستان کو چاروں جانب سے دشمن نے گھیر رکھا ہے لیکن آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی اس نے بحیثیت قومی ریاست حاصل کی ہے۔ چین نے اگر ہماری مدد کی تو مسلم امہ کی نمائندگی کے طور پر نہیں وہ قومی باہمی مفادات تھے جنہوں نے ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر مجبور کیا۔ جنگوں میں فی سبیل اللہ امدادیں نہیں ہواکرتیں، مذہبی جوش و جذبے سے اور قوت ایمانی نے بھر پور کردار ادا کیا۔ اس موقع پر بھی ایران اور سعودی عرب ثالث ہی تھے اور آنیاں جانیاں تک ہی محدود رہے کیونکہ انہیں بھی اپنے قومی مفادات ہی عزیز تھے، آئندہ بھی کوئی مسلم ملک ایسا کوئی قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا۔ سوائے اس کے یہ ریاستیں اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا لائحہ عمل ترتیب دیں کہ اسرائیل کو جارحیت سے باز رکھنے کی تدبیر کریں۔ اس وقت تک ایران کا ناقابل تلافی نقصان ہو رہاہے جبکہ اسرائیل کے نقصان کو پورا کرنے کیلئے امریکہ ہے نا! سٹہا دیں ایران کے حصہ میں زیادہ ہیں جو یہ نقصان تو پورا نہیں ہوسکتا۔ اور افسوس صد افسوس اور آئی سی کا اجلاس طلب کیا جاتا جسمیں واضع موقف ہوتا لیکن خاموشی نیم رضامندی سمجھا جارہا ہے۔ امریکہ خود بھی اس آگ میں کودسکتا ہے اور پھر خاکم بدہن وہ خوفناک مناظر ہوسکتے ہیں۔ کاش ہماری اسلامی ریاستوں کو اتنی جرات اور سیاسی بصیرت ہوکہ وہ بطور امت مسلمہ ایک سیاسی وحدت بن جائے کیونکہ اب نوشتہ دیوار ہے اور قانون قدرت کے تحت امریکہ اب زوال کے راستے پر ہے اور صدر ٹرمپ نے جنگوں کے خاتمے کے اعلان کے علی الرغم خود کوئی بڑی جنگ چھڑنا چاہ رہاہے اور اسنے ثابت کر دیا کہ وہ کسی بڑے مشن پر ہے لیکن یہ جان لیں کہ نومنتخب صدر ٹرمپ امریکہ کا گورباچوف ثابت ہو سکتاہے۔ ہوسکتاہے یہ عمار ت گرتے گرتے وقت لے لیکن یہ ضرور ہو گا مشرق وسطی میں امریکہ کا راستہ صاف ہے اور کوئی رکاوٹ نہیں، روس اس قابل نہیں کہ مداخلت کرے وہ محض لشارالاسد کو بچا کر لے گیا اور میدان صاف کرنے میں بھرپور مدد کی، چین ہمیشہ سے تصادم کی پالیسی سے دور رہتا ہے وہ ہر ملک کی اقتصادی ترقی اور بحالی میں تو ہوسکتا ہے کسی معر کے میں مدد گار نہیں ہوگا۔ کسی بڑی قوت کی اسرائیل سے کوئی دشمنی نہیں وہ محض سفارتی دباؤ سے اسرائیل اور امریکی پیش قدمی کو روکنے میں کردار ادا کرسکتاہے۔
لیکن اسرائیل اور امریکی پیش قدمی بڑھتی رہی تو وہ واضع طور پر تصادم سے بچنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے تاکہ وہ براہ راست تصادم سے دور رہ سکیں۔ ہماری خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن خوش گمانیوں سے آگے نکل کر دیکھنا ہو گا۔ محض اسرائیل تباہی کی خوش گمانی سے کام نہیں چلے گا اور نہ ہی شوشل میڈیا کے مجاہدین کے عمل سے ممکن ہوگا، کسی کو برا بھلا کہنے اور گالیاں دینے سے بھی کسی کا کیا بگڑ جائیگا۔ سوشل میڈیا پر جنگیں نہیں لڑی جاتیں، اس طرح اسرائیل کے جہاز نہیں گریں گے۔ چین اور پاکستان کو بحر حال حکمت عملی کا جائزہ لینا ہوگا کہ اسرائیل سے پاکستان پہنچے تک ایران ہی ایک ریاست ہے جو ہمارے لیے بضر اسٹیٹ کا کام کررہی ہے۔اگر حاکم بدین یہ ختم ہوئی تو اسرائیل ہمارا ہمسائیہ ملک ہوگا اور پاکستان کے قریب تر ہوگا چین بعد میں ہے اور پاکستان ایٹمی طاقت ہے۔