کراچی : مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے سینیٹ ممبران کے خلاف دائر ہتکِ عزت کا مقدمہ ناقابلِ سماعت قرار دے کر ابتدائی مرحلے پر ہی خارج کر دیا۔
عدالت نے مدعی آصف حسین سمو کی جانب سے دائر اپیل کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ دعویٰ نہ صرف قانونی طور پر ناقابلِ قبول تھا بلکہ اس میں کسی بھی قسم کے واضح ہتک آمیز الفاظ یا بدنیتی کا ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ مدعا علیہان، جو کہ یونیورسٹی کے سینیٹ کے منتخب اراکین ہیں، نے اپنے آئینی اختیارات کے تحت صرف انتظامی بے ضابطگیوں، اختیارات کے ناجائز استعمال، اور تدریسی عملے کو دھمکانے جیسے معاملات کی انکوائری کی سفارش کی تھی، جو کہ ان کا قانونی اور آئینی حق تھا۔
مدعا علیہ کے وکیل، سکندر ایوب خاصخیلی ایڈووکیٹ نے عدالت کے روبرو مؤقف اختیار کیا کہ مدعی نے مقدمہ دائر کرنے سے قبل دی گئی قانونی شرائط پر عمل نہیں کیا، خصوصاً دیفامیشن ایکٹ کے سیکشن 8 کے تحت مقررہ دو ماہ کے اندر نوٹس دینے کی قانونی شرط پوری نہیں کی گئی۔
عدالت نے واٹس ایپ پیغامات اور خطوط کو ناکافی شواہد قرار دیتے ہوئے، سی پی سی کے آرڈر VII رول 11 کے تحت مقدمہ ابتدائی طور پر ہی خارج کر دیا۔ مزید برآں، تمام ضمنی درخواستیں بھی غیر مؤثر قرار دے کر مسترد کر دی گئیں۔
قانونی ماہرین اس فیصلے کو ایک اہم نظیر کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جس میں عدالت نے واضح کیا کہ ہتکِ عزت کے دعووں میں محض الزامات کافی نہیں، بلکہ ٹھوس شواہد اور قانونی تقاضوں کی مکمل پیروی ضروری ہے۔