میجر (ر) ساجد مسعود صادق
معدنیات سے مالا مال اور اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے آج پاکستان کا صوبہ بلوچستان پوری دُنیا میں ایک اہم ترین خطہ بن چُکا ہے۔ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں آج کل ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پوری کی پوری علاقائی اور بین الاقوامی سیاست بھرپور ایکشن میں ہے اور علاقائی اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز بلوچستان پر ناصرف گہری نظر رکھے ہوئے ہیں بلکہ بین الاقوامی پلئیرز بلوچستان میں ہویومن رائٹس ایکٹیوسٹس کے ذریعے اپنے معاشی وسیاسی چالیں چل رہے ہیں۔ سمی بلوچ، ماہ رنگ بلوچ اور دیگر بلوچ یک جہتی کمیٹی کے سرکردہ رہنماؤں کی گرفتاری پر واویلہ کرنے والوں میں میڈیا اور چند معروف سیاسی شخصیات کا حصہ بن جانا کسی طور پر بھی فہم سے بالاتر ہے۔ کیونکہ یہ دونوں خواتین کے خاندان کے سرکردہ افراد کالعدم تنظیم “بلوچ لبریشن آرمی” کے قائدین میں سے شامل رہے ہیں یا اب بھی وہ پاکستان کے خلاف سازشوں کا مہرہ بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ان کی حمایت میں پاکستانی اداروں کے خلاف ملالہ یوسفزئی کا آواز اُٹھانا بھی عام فہم سے بالاتر ہے۔
جہاں کسی بھی مہذب معاشرے میں ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی کو غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے وہیں ریاست کی نظروں میں ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی کی آڑ میں دُشمن کے ہاتھوں کھلونے بن کر ریاست کو توڑنے کے پراجیکٹ میں حصہ لینے والوں کو غدار بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ دُنیا میں آزادی کی تحریکوں کی آڑ میں ہیومن رائٹس ایکٹوسٹس کو سپورٹ کرکے مخالف ممالک میں انتشار بھرپا کرنا اُسے توڑنے کی سازش کرنا بھی عصر حاضر کی ایک نئی جنگی حکمت عملی ہے جس کو مل جُل کر ناکام بنانا تمام اداروں اور مُحب وطن پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے۔ ہیومن رائٹس ایکٹوسٹس کی اصلیت اور حقانیت جاننے کا آسان اور سادہ سا فارمولہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ ہیومن رائٹس کی آواز اُٹھانے والوں کا ایجنڈا اور اُن کی اخلاقی اقدار کیا ہیں؟ آجکل جن ممالک میں ہیومن رائٹس زیادہ ایکٹیو ہیں وہاں علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کی معاشی و سیاسی کشمکش کو نظر انداز کیئے بغیر ریاست مخالف اس گھناؤنے کھیل کی سمجھ نہیں آسکتی۔
سب سے زیادہ حیران کردینے والی والی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے ایک سرکردہ اینکر جسے نے ماضی میں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اجمل قصاب جیسے بھارتی ایجنسیوں کے مہرے کو پاکستانی ثابت کرنے کی کوشش کی آج وہی “ماہ رنگ بلوچ” اور “سمی بلوچ” کو مظلوم ثابت کرنے کی کوششوں میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ کیا یہ بات ثابت شُدہ نہیں کہ ماہ رنگ بلوچ سوشل میڈیا پر وائرل آڈیو میں ناصرف اپنے پاکستان مخالف سازشیوں سے گُفتگو نظر آتی ہے بلکہ حال ہی میں اُس سے ایک سیٹیلائٹ فون بھی برآمد ہوا ہوا ہے جس سے پاکستان مخالف وہ بین الاقوامی قوتوں سے رابطے کیا کرتی تھی۔ اسی طرح ماہ بلوچ کے والد اور بھائی کیا بلوچ علیحدگی پسند تحریک کے ہراول دستے “بلوچ لبریشن آرمی” نہیں تھے؟ ماہ رنگ بلوچ کی طرح سمی بلوچ کا والد بھی اسی کالعدم تنظیم کا سربراہ بھی ہے۔ کیا کسی مُحب وطن پاکستانی کو ان مذکورہ خواتین کی گرفتاری پر آواز اُٹھانے کی بجائے ریاست پاکستان کا ساتھ نہیں دینا چاہیئے؟ ہیومن رائٹس یا شخصی آزادی کی آڑ میں ریاست توڑنے کے پراجیکٹ کو ریاستی مشینری کسی اگنور کرسکتی ہے؟
جہاں تک پاکستان کی بات کی جائے تو قیام سے لیکر آجتک پاکستان کے خلاف بھارت کی سازشیں کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں۔ بھارت تو دور کی بات کئی مغربی اور اسلامی ممالک بھی پاکستان میں اس انتشار اور علیحدگی پسندوں کو سپورٹ کرنے میں دوہرا معیار رکھتے ہیں۔ اسی طرح دہشت گردی کی جنگ کے آغاز سے لیکر آج تک پاکستانی ریاستی مشینری، پاک فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بین الاقوامی سطح پر جتنا پراپیگنڈا کیا اقوام عالم کی تاریخ میں اس جیسی دوسری مثال تلاش کرنا محال ہے اور اس پراپیگنڈا میں بھارت پیش پیش ہے۔ بھارتی میڈیا کو تو شاید کوئی اور کام ہی نہیں اور آجکل تو بلوچستان کے موضوع پر تو بھارت کے مخصوص اینکرز اور میڈیا ہاؤسز ریاست پاکستان اور افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کے خلاف تو ایسے لگتا ہے جیسے آگ اُگل رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پاکستانی میڈیا اور اُس کے تمام معروف میڈیا ہاؤسز اور اینکرز ریاست پاکستان کے دفاع کے لیئے نکلتے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو مُلکی مفادات کی رتی برابر بھی پرواہ نہیں کرتے۔
ماہ رنگ بلوچ یا سمی بلوچ کی گرفتاری پر وزیراعظم پاکستان کو خط لکھنے والی سو شخصیات سے یہ سوال پوچھنا واجب ہے کہ کیا انہوں نے کبھی کشمیر اور فلسطین میں بھارتی اور اسرائیلی بربریت کے خلاف بھی آواز اُٹھائی؟ وزیراعظم پاکستان کو کسی قسم کے سیاسی یا سماجی پریشر کی پرواہ کیئے بغیر ریاست پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنانا لازم ہے لہذا انہیں کسی طور پر ایسے افراد یا اداروں کی پرواہ کیئے بغیر سیکورٹی اور سلامتی کے ضامن اداروں کو فری ہینڈ دینا ہوگا تاکہ پُر امن اور خوشحال پاکستان کے ان دُشمنوں کا صفایا کیا جاسکے۔ اسی طرح محب وطن پاکستانیوں اور اداروں کو بھی یہ ادراک کرنا ہوگا کہ یہ معاملہ محض ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی کا نہیں بلکہ اس کی پُشت پناہی پاکستان مخالف قوتیں کررہی ہیں۔ بلوچستان میں امن کو سبوتاژ کرنے میں ناصرف افغانستان اور بھارت ملکر کام کررہے ہیں بلکہ اُن کی بلوچستان میں ان ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ کی چند دیگر قوتیں بھی پُشت پناہی کررہی ہیں۔