تحریر : طاہرمغل
ہمارے ملک میں جمہوریت کے نام پر عوام اور اُن کے اعتبار اور یقین کو دوندھا جاتا ہے عوام جن سیاست دانوں کو اپنے نمائندے کے طور پر ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں، وہی لیڈر اسمبلی میں قانون سازی یا عوامی مسائل پر بحث اور انہیں حل کرنے اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے بجائے ذاتی مفادات اور اقتدار کے حصول کے لیے تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں۔کیا پاکستان واقعی ایک فلاحی ریاست ہے؟ ہم جمہوری نظام کا حصہ ہیں یا یہ صرف عوام کو بیوقوف بنانے اور ان کومحکوم رکھنے کا ایک نعرہ ہے؟بڑے بڑے شہروں میں امراء اور حکومتی ارکان لاکھوں کے ظہرانے اور عشائیے سے لطف اندوز ہوں۔ یہ کیسی بے حسی والی جمہوریت ہے جس میں عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو۔ دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو، لوگ حکومت کی طرف سے امداد کی تقسیم کے وقت ایک ایک آٹے کے تھیلے کیلئے لڑتے رہیں۔عوام پِستے رہے اور ہم سیاسی بحث مباحثوں میں مگن رہے۔ کبھی یہ نہ سوچا کہ یہ ایک سیاسی نہیں، معاشی مسئلہ ہے،جس سے اُسی طرح نمٹنا چاہیے۔ایک معاشی معاملے سے عوامی جذبات بھڑکانے کا کام لیا گیا اور کسی نے مشورہ تک نہیں دیا کہ ذرا صبر کرلیں، وقت گزر جائے، پھر لڑ لیں گے، کہیں بھاگے تو نہیں جارہے، مگر شاباش ہے، ہمارے سیاست دنوں اور اہلِ دانش پر،جو ایک دوسرے سے سینگ لڑانے سے باز ہی نہ آئے اور نہ اب آ رہے ہیں۔ منہگائی، بھوک اور گرتی معیشت کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور ہم حل سے مسلسل دُور ہوتے جا رہے ہیں۔نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ بے روزگار ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ڈگریاں لینے کے بعد بھی انھیں کوئی نوکری نہیں ملی، جن کو نوکریاں مل چکی ہیں ان کی تنخواہ اتنی کم ہے کہ بمشکل گزارا کر رہے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری لوگوں کی برداشت سے باہر ہو رہی ہے۔وہ کیا زمانے تھے کہ حکومتیں پہلے عوام کا سوچتی تھیں اور عوام کی سہولیات عوام کا علاج معالجہ تعلیم وغیرہ کا سوچتے تھے پھر اپنا گھر بھرتی تھیں۔ اب حکومت صرف اپنا گھر بھرنا چاہتی ہے، اُسے اِس بات کی کوئی خبر ہے اور نہ پرواہ کہ ملک کے 25 کروڑ عوام کس حال میں زندہ ہیں۔ایک جانب تو موروثیت جس نے ملک میں جڑیں مضبوط کر لی ہیں اس نے جمہوریت کو صحیح معنوں میں پنپنے نہیں دیا اور دوسری جانب اس قسم کی الیکٹورل معاہدے کہ ایک باری تمہاری ایک ہماری یہ سب جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے لیے کافی ہیں۔چند خاندان ہیں جو پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لے کر آج تک کسی نہ کسی صورت میں اقتدار پر قابض ہیں اورملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ ہمارے پیارے نبی کریمﷺ سماجی و معاشرتی اور سیاسی وحکومتی امور کو مشاورت کی بنیاد پر سر انجام دیا کرتے تھے۔ سیرت نبوی ﷺ میں باہمی مشاورت کا یہ اصول آٸندہ نسلوں کےلیے مشعل راہ ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کی تربیت بھی اسی اصول پر فرمائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلے گا وہ کامیاب ہو گا تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ مشاورت کا یہ عمل ہی سیاست کا سنہری اصول ہے۔ جدید دور میں جو طرز حکومت سب سےمقبول اورراٸج ہے وہ جمہوریت ہے۔ مروجہ جمہوریت میں کئی نقائص کے باوجود اقوام مشرق و مغرب کی کئی کامیابیوں کاایک سبب جمہوری طرزحکومت و سیاست ہے۔