ننکانہ صاحب (بیورورپورٹ) بابا گورو نانک یونیورسٹی کے زیر اہتمام یوم کشمیر یکجہتی کے موقع پر تقریری مقابلہ کا انعقاد کیاگیاڈائریکٹوریٹ آف اسٹوڈنٹس افیئرز بابا گورو نانک یونیورسٹی ننکانہ صاحب نے کشمیر یکجہتی دن کے موقع پر ایک تقریری مقابلہ منعقد کیا۔ اس تقریب میں مختلف شعبہ جات کے طلباءنے بھرپور شرکت کی اور کشمیر کی آزادی، کشمیری عوام کی جدوجہد اور خطے کی پیچیدہ تاریخ جیسے اہم موضوعات پر تقریریں کیں۔ ان تقریروں میں خود مختاری کی جدوجہد، کشمیریوں کی مزاحمت اور خطے کے سیاسی و تاریخی عوامل پر روشنی ڈالی گئی جو طویل عرصے سے جاری تنازعے کو متاثر کر رہے ہیں۔ طلباءکی ان قیمتی کاوشوں نے کشمیر کے مسائل کے بارے میں آگاہی بڑھانے اور ان کے چیلنجز کو بہتر سمجھنے میں اہم کردار ادا کیا۔مبشر طارق رجسٹرار بابا گورو نانک یونیورسٹی نے کشمیری عوام کے دکھ اور استقامت کو اجاگر کیا اور عالمی سطح پر ان کے حقوق کی بحالی کے لیے مداخلت کی ضرورت پر زور دیا۔ ہمیں بے آوازوں کی آواز بننا ہوگی، اور کشمیریوں کی آزادی کے لیے مسلسل حمایت کی اہمیت پر زور دیا،پروفیسر ڈاکٹر اظہر رسول، ڈائریکٹر ORIC/ چیئرمین شعبہ زوالوجی نے کشمیریوں کے انسانی حقوق چیلنجز پر ایک مضبوط تقریر کی، خاص طور پر جاری پابندیوں اور تشدد کے حوالے سے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے کشمیریوں کو جن مشکلات کا سامنا ہے، ان میں کرفیو، فوجی موجودگی اور تعلیم و صحت کی سہولتوں کی کمی شامل ہے۔ “کشمیری تنازعے کے بارے میں ہر سرخی کے پیچھے ایک ذاتی کہانی ہے، جس میں دکھ، استقامت اور بہتر مستقبل کی آرزو چھپی ہوئی ہے”۔ڈاکٹر شاہد مبین، ڈائریکٹر QEC اور شعبہ ریاضی کے چیئرپرسن نے اس موقع پر کشمری مسئلہ کے حوالے سے طلباءکو تفصیل سے آگاہ کیا۔ اپنے سیاسی، تاریخی اور سماجی پہلوو¿ں پر گہری سمجھ بوجھ رکھتے ہوئے، ڈاکٹر مبین نے کشمیر کے تنازعے کی پیچیدگیوں کی وضاحت کی اور اس میں شامل جغرافیائی، تاریخی اور موجودہ مسائل پر روشنی ڈالی۔ ان کا مقصد طلباءکو اس مسئلے کی اہمیت اور کشمیری عوام کے انسانی حقوق کے مسائل کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا تھا۔تقریب کے اختتام پر پروفیسر ڈاکٹر محمد افضل، وائس چانسلر بابا گورو نانک یونیورسٹی نے کشمیر کی بے مثال خوبصورتی کو اجاگر کیا، نہ صرف اس کے دلکش مناظر بلکہ اس کی ثقافت، تاریخ اور کشمیری عوام کے حوصلے کی بھی تعریف کی۔ وائس چانسلر نے اس تنازعے کی جڑوں کو 1947 کی تقسیم اور اس کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والے سرحدی تنازعات سے جوڑا۔ کشمیر کا مسئلہ صرف ایک سیاسی تنازعہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک گہرا چیلنج ہے جس نے نسلوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے طلباءاور فیکلٹی سے اپیل کی کہ وہ کشمیری عوام کے حقوق کے لیے متحد رہیں، جو سیاسی کشمکش، تنازعات اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر افضل نے کہا کہ تعلیمی کمیونٹی کو کشمیریوں کی آواز بلند کرنے اور ان کے حقوق کے لیے مختلف پلیٹ فارمز پر کام کرنے کا اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اتحاد کے ذریعے ہی کشمیر کے لیے تبدیلی لائی جا سکتی ہے اور ایک بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد کی جا سکتی ہے۔یہ تقریب ایک معیاری اور بصیرت افزا موقع تھا جس نے یونیورسٹی کمیونٹی کو کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی کے اظہار میں یکجا کیا۔