میجر (ر) ساجد مسعود صادق
بجٹ 2025/2026آگیا اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 6%اضافہ ہوگیا اور پینشن میں 7% اضافہ۔ اس پر ایک طرف دل کرتا ہے حکومت کو شاباش دی جائے اور سرکاری ملازمین کو مُبارک لیکن جب پارلیمینٹیرینز کی تنخواہ میں اضافے پر نظر پڑتی ہے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے الفاظ ختم ہوجاتے ہیں۔اسپیکر قومی اسمبلی (ایاز صادق) اور چیئرمین سینٹ (یوسف رضا گیلانی) کی تنخواہ میں 500% اضافہ کیا گیا ہے اور 6,50,000/- روپے اس میں مزید Sumptuous Allowance کے بھی شامل کیئے گئے ہیں۔ اسی طرح تمام پارلیمینٹرین کی تنخواہوں میں 188% فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے اور ممبرز پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ کا موازنہ دل دہلا دینے کے لیئے کافی ہے۔ اس پر ہی بس نہیں بلکہ “عوام” کو یکم جولائی سے اور “عوامی نمائیندوں” کو یکم جنوری سے یہ اضافہ ملے گا۔
لیکن جب وزیر خزانہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کیا تو حکومتی پارٹیوں کے ممبرز اسمبلی نے بہت زور زور سے ڈیسک بجائے ڈیسک بجانے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟ عوام کی داد رسی؟ حکومت وقت کی سخاوت؟یا پھر حکومت کی غربت نوازی یا پھر شاید سرکاری ملازمین کے ساتھ وزیرخزانہ کے مذاق پر اُن کو داد۔ پارلیمینٹیرینز کی سرکاری گاڑیاں کتنی ہوں گی؟ ملازمین کتنے ہوں گے؟ پٹرول کی مد میں کیا ملے گا؟ بیرونی دوروں پر کتنا خرچ کریں گے؟ میڈیکل کے نام پر کتنی ادائیگی ہوگی؟ کوئی لگے ہاتھوں آئی ایم ایف سے ہی پوچھ لے کہ اے معاشی آقا! عوام کی چمڑی تو ادھیڑتے ہو کبھی حکمرانوں کی تنخواہوں پر بھی پابندی لگاؤ، اور کبھی حکمرانوں کے اللّوں تللّوں پر بھی پابندی لگاؤ۔ کُرسی کی خاطر ایک دوسرے کی پگڑیا اچھالنے والوں کی اپنی تنخواہ میں اضافے پر اتحاد عوام کے لیئے درس عبرت تو رکھتا ہے لیکن یہ کام ذرا عقل والا ہے جس سے عوام کو سروکار نہیں۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ خلافت کے پہلے دن ہی صبح سویرے سر پر کپڑوں کی گٹھڑی رکھ کر بازار کو نکلے تو لوگوں نے پوچھا کہ آپ کدھر کو جاتے ہیں کہا کپڑے بیچنے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ اگر کپڑے بیچیں گے تو حکومت کون چلائے گا۔جواب دیا میرا اور میرے بچوں کا گذارہ کیسے ہوگا۔ کہا گیا کہ آپ سرکاری خزانے سے تنخواہ مقرر کرلیں۔ جب بہت تھوڑی تنخواہ مقرر کی تو لوگوں نے کہا کہ اس سے گذارہ نہ ہوا تو کیا کریں گے فرمایا میں مزدور کی زدوری بڑھا دوں گا۔ یہ نہیں کہا میں اپنی تنخواہ 500% یا 188% بڑھا دوں گا۔ پاکستانی صادق و امین حکمرانوں اور صدیق اکبررضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی تنخواہ میں اضافہ۔ اضافہ ہو تو ایسا۔
اب عوام کی سانس اور قبر پر بس ٹیکس باقی ہے باقی عوام کو ہر چیز پر ٹیکس دینا پڑتا ہے لیکن مِلوں، فیکٹریوں اور زمینوں کے مالکان جو پارلیمنٹ میں براجمان ہیں وہ اس ڈیوٹی سے مُستثنٰی ہیں بلکہ انہیں یہ حق حاصل ہے کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بھی اپنا حصہ اپنی مرضی سے وصول کریں۔ کیا ان حکمرانوں یا وقت کے فرعونوں کی اس نا انصافی کا حساب نہیں ہونا۔ جب آخرت میں حساب کتاب ہوگا تو وہاں نہ کوئی “پیر گیلانی” ہوگا نہ ” ایاز صادق” کیونکہ خُدا کا انصاف کا ترازو ہمارے حکمرانوں اور ہماری عدالتوں کے انصاف سے الگ ہے۔ ہماری عدالتیں طاقتوروں کا ساتھ دیتی ہیں اور کمزوروں کا استحصال کرتی ہیں جبکہ وہاں ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے “محمود ایاز” وہاں عہدے نہیں کردار بولے گا اور نامہ اعمال کے مطابق فیصلہ ہوگا۔