تحریر۔طاہراشرف
عوام کو ناکردہ گناہوں کی سزا جمہوریت کی شکل میں
جب سے ہوش سنبھالا ہے دیکھ رہے ہیں اور سُن رہے ہیں کہ پچھلی کھا گئی خزانے خالی ہیں ملک پر بڑے مشکل حالات ہیں اور اس مشکل حالات میں بھی وقفہ وقفہ سے وزیروں مشیروں اور ایم این اے ایم پی ایز کی تنخواہوں اور پروٹوکول میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوا کمی نہیں ہوئی اور اس ملک کو ان حالات پر پہنچانے والے آج بھی اس ملک کی اسمبلیوں میں دندناتے پھر رہے ہیں اور کوئی اُن کو ہاتھ ڈالنے والا نہیں ہے کہ پچھلے 40۔50 سالوں سے تم لوگوں ان اسمبلیوں میں رہ رہے ہو اور ملک کنگال ہوتا جا رہا ہے اور تم لوگوں کی جائیدادوں اور بینک بیلنس میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس ملک کی عوام جنہوں نے تم لوگوں کو اپنے ملک اور اپنے خاندانوں اور بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے چنا ہے وہ یا تو خودکشیاں کر رہے ہیں یا اپنے بچوں کو بیچ رہے ہیں اخر کیا بدلا وہی چند خاندان اور وہی لوگ کبھی پیپلزپارٹی میں کبھی مسلم لیگ نوازشریف گروپ میں کبھی پی ٹی آئی میں کبھی چند جماعتوں کی مشترکہ حکومت میں بار بار وہی چہرے وہی خاندان وہی لوگ اس وقت اس صورتحال میں 80% لوگ جو کہ عوام ہیں جو دو وقت کی روٹی کو بھی ترس رہے ہیں کسی نہ کسی طرح سے ملک سے باہر جانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور ملک کے ان حالات کے پیش نظر کئ ممالک نے پاکستان کی عوام کے لیے ویزے بند کر دیے ہیں اور یہ خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی ناکامیاں ہیں اور ہماری نام نہاد جمہوری حکومتوں کے منہ پر تماچہ ہے اس مشکل صورتحال میں حل تلاش کرنے کے لئے عوام کی طرف سے ہمدردی، توجہ، اور حمایت کی بڑی ضرورت ہے۔ زیادہ سے زیادہ غریب عوام کی تعلیم، معاشی، اور صحت کی مدد فراہم کرنے کے لئے حکومتی اور غیر حکومتی آرگنائزیشنز کو بھی جدوجہد کرنی چاہئے۔ انفارمیشن کینٹرز اور عوام کو مواقع فراہم کرنے کا بھی اہم کردار ہے تاکہ وہ آسانی سے ضروری معلومات تک پہنچ سکیں۔ اس کے علاوہ، ذہانت، تعلیم، اور مہارتوں کو فروغ دینا بھی ایک اہم قدم ہو سکتا ہے جو معاشرت کی ترقی اور توانائی میں اضافہ کرے۔یہ مشکل وقت ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے ارادے اور مواقف میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے سماج میں بہتری لا سکیں۔ اسی طرح ہمیں اپنے آس پاس کے افراد کی خوشی اور صحت کے لئے ساتھی بننا چاہئے اور ان کی مدد کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ امید ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کی مدد کر کے اس مشکل وقت سے گزار سکیں گے اور بہتر مستقبل کی جانب قدم بڑھائیں گے۔جمہوریت جمہوریت کا کھیل ہے، جہاں غریب عوام کو اپنے حقوق اور فوائد حاصل کرنے کی یقین دہانی ہوتی ہے۔ ایک جمہوری نظام میں، عوام کو انتخابات کی زریعہ سے اپنے منتخب قومی نمائندوں کو منتخب کرنے کا موقع ملتا ہے، جنہیں پولیسیوں اور فیصلوں پر فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ یونانی مفکر پلیٹو نے یہ کہا تھا کہ جمہوریت عوام کے لیے ہے، اور جمہوری نظام میں عوام کی آواز میں کرپشنٹ ہونے کے خطرے کم ہوتے ہیں۔ اس طرح، جمہوریت کو غریب ترین لوگوں کے فوائد اور حقوق کو بڑھانے کا ذریعہ بنا سکتی ہے۔پاکستانی جمہوریت میں عوام کی غربت سے مرنا ایک بڑی مسئلہ ہے، یہ مسئلہ کئی عوامی حقوق اور سہولتوں کو متاثر کرتا ہے۔ حکومت کو یہ مسئلہ توجہ سے دیکھنا چاہیے اور عوام کی معیشت میں بہتری لانے کیلئے کام کرنا چاہیے۔اصلاحات، توانائی، اور اقتصادی ترقی کیلئے سرمایہ کاری کو مزید جاری رکھنا چاہیے تاکہ مواطنوں کو مزید روزگار کے مواقع فراہم ہو سکیں۔ عوام کے لئے اوپر سے سہولتوں تک کا راستہ کم کرنے اور ان کی ترقی کو بڑھانے کیلئے تعلیم کا شہرت کے ساتھ مناسب معیشت تک پہنچایا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ، عوام کی صحت کی دیکھ بھال، بنیادی انفراستر کی بہتری، اور معیشتی فعالیتوں میں توانائی کے اضافے کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ عوام کی غربت کا مسئلہ حل کرنے کیلئے اقدامات دائر کیے جا سکیں۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جمہوریت کی بنیاد خود عوام پر ہوتی ہے اور جمہوری انتخابات کے ذریعے عوام اپنے نمائندوں کو منتخب کرتی ہے۔ اگر کسی مملکت میں جمہوریت کا نظام درستانہ طریقے سے نہ چلایا جائے تو عوام اس کا نتیجہ بھگتتی ہے، لیکن یہ بھی اہم ہے کہ حکومت اور عوام کے درمیان بھرپور تعاون اور دیگر ہمکاری بروئے کار لائی جائے تاکہ مملکت کی ترقی کے لیے مشترکہ مقاصد پورے ہوسکیں اکثر نام نہاد جمہوریت میں عوام کو ناکردہ گناہوں کی سزائیں ملتی ہیں جو کہ اس عوام کے ساتھ سراسر ناانصافی ہوتی ہے جمہوریت قوتیں ہمیشہ عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنا کر اپنے کیے دھرے کا عوام کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ان چند خاندانوں کو پچیس کروڑ عوام ہی پال رہی اور عوام کو ہی ہر چار پانچ سال بعد یہ چند خاندان ہی گمراہ کر کے پھر اسمبلیوں کا رُخ کرتے ہیں اور وہی پُرانا رونا کہ پہلے والی حکومت کھا گئی ملک کو کنگال کر دیا وغیرہ وغیرہ اور عوام آج بھی وہاں ہی کھڑی ہے جب سے یہ جمہوریت کا سانپ پیدا ہوا تھا اور اب اس جمہوریت کا سانپ ایک شیشناگ بن چکا ہے جو ہمیشہ اس عوام کو خون پیتا رہتا ہے